افغانستان میں سڑک کنارے نصب کیے گئے بم سے مسافر بس ٹکرانے کے نتیجے میں چار خواتین اور تین بچوں سمیت 11شہری ہلاک ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔
بم حملہ ہفتے کی شام افغانستان کے مغربی صوبے بادغیس میں ہوا تھا۔ تاحال کسی گروپ نے اس حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے تاہم بادغیس کے گورنر حسام الدین شمس نے طالبان پر بم نصب کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق صوبۂ بادغیس کے ایک اور عہدے دار خداداد طیب نے بھی ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ بس سڑک کنارے نصب شدہ بم سے ٹکرانے کے بعد وادی میں جاگری تھی۔
گزشتہ روز ہونے والا یہ حملہ رواں ہفتے کابل میں مسافر بسوں کو ہدف بنانے کے واقعات کے تسلسل کے بعد کیا گیا ہے۔
اس سے قبل دولتِ اسلامیہ (داعش) نے کابل میں ہونے والے یکے بعد دیگرے دو بسوں پر کیے گئے حملوں کی ذمے داری قبول کی تھی۔
SEE ALSO: کابل میں دو مسافر ویگنوں میں دھماکوں سے 8 افراد افراد ہلاک، افغان فورسز کی تربیت کا معاملہ ’غیر واضح‘گزشتہ چند ہفتوں سے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان لڑائی میں شدت آ گئی ہے اور مختلف حصوں میں تقریباً روزانہ جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ طالبان زیادہ سے زیادہ علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے اور کابل کے نزدیک چوکیوں اور اڈوں کو مستحکم کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔
ہفتے کو طالبان نے کہا تھا کہ وہ کابل سے 150کلومیٹر جنوب میں صوبۂ غزنی کے ضلعے ’دہیاک‘ پر قبضہ کرچکے ہیں۔
دوسری جانب افغان حکام کا کہنا تھا کہ انہوں نے صرف اس علاقے سے اپنی فورسز کو ’منتقل‘ کیا ہے۔
غزنی کابل سے قندھار جانے والی سڑک پر واقع اہم صوبہ ہے۔ افغانستان کے جنوب میں قندھار اس سے قبل طالبان کا مضبوط گڑھ رہا ہے۔ ان صوبوں میں متحارب گروہوں کے درمیان مسلسل جھڑپیں جاری رہی ہیں۔
سن 2018میں طالبان نے مختصر وقت کے لیے غزنی کے صوبائی دارالحکومت پر قبضہ کرلیا تھا۔ ان جھڑپوں میں متعدد سرکاری عمارتیں نذرِ آتش اور تباہ کر دی گئیں تھیں۔
SEE ALSO: افغان مشیر برائے قومی سلامتی کے بیان پر تنازع: ’کوئی پاکستانی آپ سے ہاتھ بھی نہیں ملائے گا‘خیال رہے کہ امریکہ کی جانب سے فوجی انخلا کے اعلان کے بعد سے افغانستان بھر میں پُرتشدد واقعات بڑھ گئے ہیں۔
صدر جو بائیڈن نائن الیون حملوں کے 20 برس مکمل ہونے تک رواں برس امریکہ کی افواج کو واپس بلانے کا حکم دے چکے ہیں۔