وکی لیکس کے معاملے کا تعلق اٹارنی جنرل سے ہے: ٹرمپ

فائل

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کے روز کہا ہے کہ وہ وکی لیکس کی ویب سائٹ سے متعلق کچھ نہیں جانتے، جس کے بانی جولین اسانج کو برطانیہ سے گرفتار کیا گیا ہے۔ ویب سائٹ کا دعویٰ ہے کہ ادارہ مجاز حکام کے غیر قانونی کام کے بارے میں عوام الناس کو آگاہ کرتا ہے۔

سینتیس برس کے آسٹریلیائی شہری 2012ء سے لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں رہتے رہے ہیں، لیکن جمعرات کو انھیں وہاں سے بے دخل کیا گیا اور برطانیہ کی پولیس نے اُنھیں اپنی حراست میں لیا۔

ایکواڈور کا کہنا ہے کہ صیغہٴ راز کی نوعیت کی دستاویزات شائع کرکے اسانج نے دوسرے ملکوں کے اندرونی معاملات میں دخل دیا، اور یوں سیاسی پناہ سے متعلق مروجہ ضابطوں کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔

جمعرات کے روز اخباری نمائندوں نے ٹرمپ سے اسانج کی گرفتاری سے متعلق سوالات کیے۔

ٹرمپ نے کہا کہ ’’وکی لیکس کی ویب سائٹ سے متعلق مجھے کچھ نہیں پتا۔ میں نہیں جانتا۔ مجھے یہ ضرور پتا ہے کہ معاملے کا تعلق جولین اسانج سے ہے اور میں دیکھتا رہا ہوں کہ اسانج کے ساتھ کیا ہوا۔ اور میرے خیال میں اس بات کا زیادہ تر تعلق اٹارنی جنرل سے ہے جو بہترین کام کر رہے ہیں۔ اس لیے، یہ معاملہ وہی طے کریں گے‘‘۔

سال 2016 میں انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے بارہا وکی لیکس کے بارے میں ذکر کیا تھا جب ادارے نے ’ڈیموکریٹ نیشنل کمیٹی‘ کی ہیک ہونے والی اِی میلز شائع کی تھیں۔ پینسلوانیا میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ایک بار اُنھوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ ’’وکی لیکس۔ مجھے وکی لیکس سے پیار ہے‘‘۔
سال 2010ء میں وکی لیکس نے700000 سے زائد دستاویزات، وڈیوز، سفارتی مراسلے اور عراق اور افغانستان کے میدان جنگ کی روداد سے متعلق اطلاعات شائع کی تھیں جسے امریکی فوج کی ایک سابق اہلکار چیلسیا میننگ سے حاصل کیا گیا تھا۔ ان میں شہریوں کی ہلاکت کی تفصیلات موجود تھیں، اور ساتھ ہی کیوبا کے گوانتانامو بے کے حراستی مرکز میں قید مشتبہ دہشت گردوں کے بارے میں تفصیل موجود تھی۔

جاسوسی کے ضابطوں کی خلاف ورزی کے الزام پر میننگ کے خلاف 2010میں مقدمہ چلایا گیا۔ اُنھیں 2017ء میں رہا کیا گیا۔ لیکن، وکی لیکس کے بارے میں گرانڈ جیوری کے سامنے شہادت دینےسے انکار پر مارچ 2019ء میں اُنھیں دوبارہ قید کیا گیا۔
اسانج نے ایکواڈور کے سفارت خانے میں سیاسی پناہ لی تھی جس سے قبل سویڈن میں ان کے خلاف زنا بی الجبر کے الزامات لگے تھے، جنھیں بعد میں واپس لے لیا گیا تھا۔ اس وقت انھوں نے پیش گوئی کی تھی کہ انھیں ملک بدر کرکے امریکہ بھیجا جائے گا۔

سفارت خانے کی بالکنی سے اپنے حامیوں پر مشتمل اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اسانج نے کہا تھا کہ ’’ایسے میں جب وکی لیکس کو دھمکیاں مل رہی ہیں، ویسے ہی اظہار رائے اور ہمارے تمام معاشروں کے فروغ کی راہ میں رکاوٹیں حائل ہیں‘‘۔

امریکہ نے اسانج پر الزام لگایا تھا کہ میننگ سے ساز باز کرکے اُنھوں نے امریکی محکمہ دفاع کے کمپیوٹروں سے صیغہ راز کی نوعیت کی اطلاعات تک رسائی حاصل کی، جس پر برطانیہ سے ان کی حوالگی کی درخواست کی گئی تھی۔