آسام: نسلی تشدد کا واقعہ، ہلاک ہونے والوں کی تعداد 58 ہوگئی

آسام: نسلی تشدد

متاثرین میں مسلمان زیادہ ہیں۔ بے گھر ہونے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیشِ نظر حکومت نے پناہ گزیں کیمپوں کی تعداد بڑھا کر 200 کردی ہے
بھارتی ریاست آسام میں نسلی تشدد جاری ہے اور جمعے کے روز چرانگ ضلع میں 14لاشوں کی برآمدگی کے ساتھ ہی پُر تشدد واقعات میں مرنے والوں کی تعداد 58تک پہنچ گئی ہے۔ واقعے میں 400گاؤں بری طرح متاثر ہیں اور ڈھائی لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔

رپورٹوں کے مطابق اُن کے گھروں کو نذرِ آتش کردیا گیا ہے اور اُنھیں اپنی جان بچانے کے لیے گھروں سے بھاگنا پڑا ہے۔

متاثرین میں مسلمان زیادہ ہیں۔ بے گھر ہونے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیشِ نظر حکومت نے پناہ گزیں کیمپوں کی تعداد بڑھا کر 200کردی ہے۔نجی تنظیموں کی جانب سے بھی متعدد کیمپ لگائے گئے ہیں۔

بوڈو قبائلیوں اور مسلمانوں کے مابین بھڑکنے والےفسادات کا دائرہ کوکراجھر، چرانگ، ڈُھبری، بوگائی گاؤں اور اودڑ گوڈی تک پھیل گیا ہے۔

ریاست کے کانگریسی وزیر اعلیٰ ترون گوگئی نے الزام لگایا ہے کہ مرکزی حکومت نے فوج بھیجنے میں تاخیر کی۔متاثرہ علاقوٕ میں فوج کے پہنچنے میں چار پانچ روز لگ گئے۔

اِسی اثنا میں، راجیہ سبھا کے سابق ڈپٹی چیرمین اور کانگریس کے رکن پارلیمنٹ اے رحمٰن خان کی قیادت میں مسلم ارکان ِ پارلیمان کے ایک وفد نے وزیر داخلہ پی چدم برم سے ملاقات کی ہے اور مرکز سے مداخلت کا مطالبہ کیا ہے۔

نسلی تشدد گذشتہ ہفتے اُس وقت شروع ہوا جب کوکراجھر میں دو مسلم اسٹوڈنٹ لیڈروں عبد الصدیق شیخ اور محبوب الاسلام پر حملہ کرکے زخمی کردیا گیا۔بتایا جاتا ہے کہ مسلمانوں نے جوابی کارروائی کی جس میں بوڈو ٹائیگرز کے چار سابق کارکن مارے گئے۔

بوڈو لیڈر علیحدہ بوڈو لینڈ کا مطالبہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مسلمان اِس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اُنھوں نے ایک’ آل پارٹیز فورم‘ تشکیل دیا ہے جس میں بوڈو آبادی کے نمائندوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔

بوڈو لیڈروں کا دعویٰ ہے کہ متاثرہ ضلع میں مسلمانوں کی اکثریت بنگلہ دیش کے تارکینِ وطن پر مشتمل ہے۔