روسی حملے مشرقِ وسطیٰ کے تحفظ کی ضمانت ہیں، بشار الاسد

ایک ایرانی ٹی وی نے اتوار کو شام کے صدر صدر بشار الاسد کا انٹرویو نشر کیا ہے

صدر بشار الاسد نے دعویٰ کیا کہ شامی اور روسی فضائیہ کے جنگی طیاروں کی شدت پسندوں کے اہداف پر بمباری کے نتائج امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ایک سال سے جاری فضائی کارروائیوں سے کہیں بہتر ہیں۔

شام کے صدر بشار الاسد نے کہا ہے کہ ان کی حکومت، روس اور اس کےاتحادیوں کی شام میں فوجی کارروائیاں مشرقِ وسطیٰ کو تباہی سے بچانے کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔

اتوار کو ایک ایرانی ٹی وی پر نشر کیے جانے والے انٹرویو میں صدر اسدنے کہا کہ شام میں روس کی فوجی کارروائیوں کا مقصد مشرقِ وسطیٰ کو تباہی سے بچانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر یہ کارروائیاں کامیاب نہ ہوئیں تو ہمیں صرف ایک یا دو ریاستوں کی نہیں بلکہ پورے خطے کی تباہی و بربادی کا سامنا کرنا ہوگا۔

شامی صدر نے دعویٰ کیا کہ شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف امریکہ کی قیادت میں بننے والے عالمی اتحاد کے شام میں گزشتہ ایک برسوں سے جاری فضائی حملوں کا الٹا نقصان ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکی اتحاد کی کارروائیوں کے نتیجے میں دہشت گردی پھیلی ہے اور شدت پسند تنظیموں کو نئے افراد بھرتی کرنے کا موقع ملا ہے۔

اس کے برعکس، ان کے بقول، شام، روس، ایران اور عراق پر مشتمل اتحاد دہشت گردی کے خلاف حقیقی نتائج حاصل کرسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ شامی اور روسی فضائیہ کے جنگی طیاروں کی شدت پسندوں کے اہداف پر بمباری کے نتائج امریکہ اور اس کے مغربی اور عرب اتحادیوں کی ایک سال سے جاری فضائی کارروائیوں سے کہیں بہتر ہیں۔

انٹرویو میں صدر بشار الاسد کا کہنا تھا کہ امریکی اتحاد بعض شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کا دعویٰ کرتا ہے جب کہ وہ بعض باغی گروہوں کو کھلم کھلا مدد دے رہا ہے جو، ان کے بقول، منافقت ہے۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی مدد کرنے والے ممالک کبھی اس سے مقابلہ نہیں کرسکتے اور یہی وجہ ہے کہ آج ایک سال بعد بھی امریکی اتحاد کی کارروائیوں کا کوئی نتیجہ برسرِ زمین نظر نہیں آتا۔

روس نے رواں ہفتے شام میں فضائی کارروائیوں کا آغاز کیا تھا۔ شام اور روسی حکومت کا موقف ہے کہ روسی جنگی طیاروں کی شام میں پروازیں دہشت گردی کے خلاف دونوں ملکوں کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت ہورہی ہیں جن کا ہدف شدت پسند گروہ داعش اور اس کے ٹھکانے ہیں۔

لیکن شامی حزبِ اختلاف اور صدر اسد کی حامی فوج سے برسرِ پیکار باغیوں نے الزام لگایا ہے کہ روسی طیارےداعش کے ساتھ ساتھ ان کے ٹھکانوں پر بھی بمباری کر رہے ہیں۔

امریکہ، فرانس اور برطانیہ کا موقف ہے کہ روس کی شام میں فوجی مداخلت کا مقصد خطے میں اپنے اہم ترین اتحادی بشار الاسد کی حکومت کو تحفظ فراہم کرنا ہے جس کے خلاف باغیوں کو حال ہی میں قابلِ ذکر کامیابیاں ملی ہیں۔

دریں اثنا روسی وزارتِ دفاع نے کہا ہے کہ شام میں اس کے جنگی طیاروں کے حملے جاری ہیں اور گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران روسی طیاروں نے داعش کے کم از کم 10 ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔

روسی وزارتِ دفاع نے اتوار کو اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ جن اہداف پر بمباری کی گئی ہے ان میں داعش کا ایک تربیتی مرکز اور خود کش جیکٹ بنانے والی ایک فیکٹری بھی شامل تھی۔