خودکشی کی کوشش کو ڈی کرمنالائز کیا جانا چاہیے: ماہرِ نفسیات

SUICIDE PREVENTION

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں خودکشی کی کوشش کو ڈی کرمنالائز کرنا، قانونی طور پر بھی اور معاشرتی طور پر بھی بہت اہم ہے۔

دنیا بھر میں آبادی کے پندرہ سے بیس فیصد افراد عام ذہنی و نفسیاتی امراض کا شکار ہوتے ہیں مگر پاکستان میں پچھلے پندرہ برس میں دہشت گردی، غربت اور دیگر معاشرتی مسائل کی وجہ سے ایک اندازے کے مطابق یہ تناسب بڑھ کر بیس سے تیس فیصد تک ہو گیا ہے۔ یہ کہنا ہے ماہر نفسیات عاصمہ ہمایوں کا۔

وائس آف امریکہ سے ایک فیس بک لائیو میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایک سے دو فیصد افراد کے لئے بھی مناسب علاج کی سہولیات میسر نہیں ہیں جو شدید ذہنی امراض کا شکار ہوتے ہیں۔ ایسے میں جہاں ہر چوتھے شخص کو کسی نہ کسی صورت میں کونسلنگ کی ضرورت ہے تو ہمارے پاس نہ ہی اس کے وسائل ہیں اور نہ ہی اس بارے میں حکومت کا کوئی پلان ہے۔

اس صورت حال سے کیسے نمٹا جائے، اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ عالمی ادارہ برائے صحت کے مطابق اس کا علاج یہ ہے کہ جو پرائمری کئیر ہے، جو جنرل پریکٹیشنر ہیں انہیں اس کی ٹریننگ دی جائے۔ پاکستان میں پانچ سو سے بھی کم سائکائٹرسٹ ہیں اور سائکالوجسٹس کے لئے بھی پوسٹ گریجوئیٹ کی مناسب سہولیات موجود نہیں۔ ایسے میں ہمارے عام ڈاکٹر کو ذیابطیس کا علاج تو آتا ہے مگر وہ ڈپریشن جیسی عام بیماری کی علامات کی تشخیص کرنے سے بھی معزور ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس نہ وسائل ہیں اور نہ ہی حکومتی سطح پر صحت کے ایجنڈا میں ذہنی صحت شامل ہے، ’’بلکہ ذہنی صحت کا ایجنڈا حکومت کے ریڈار پر ہی نہیں ہے‘‘۔

طلبا میں خودکشی کے حالیہ واقعات پر ان کا کہنا تھا کہ اگر ہمارا دو تہائی حصہ تیس سال سے کم عمر ہے تو اگر یہ سکول، کالج یا جامعات میں جا رہے ہیں تو وہاں ایسے نظام کی ضرورت ہے جو یہ دیکھ سکے کہ طلبا دباؤ کا تو شکار نہیں ہیں۔ اور اگر ہیں تو کیا یہ دباؤ اس حد تک تو نہیں بڑھ گیا کہ طلبا ذہنی بیماری کا شکار ہو گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ذہنی مسائل سے متعلق سٹیگماز دنیا میں ہر جگہ موجود ہیں۔ لیکن پاکستان جیسے ممالک میں تعلیم اور شعور کی کمی کی وجہ سے زیادہ رکاوٹین بن جاتی ہیں۔

تحقیق کے مطابق پاکستان میں نوے فیصد سے زیادہ خودکشی کرنے والے وہ لوگ تھے جو شدید ذہنی بیماری میں مبتلا تھے۔ ذہنی بیماری کا پڑھائی، معاشرتی رتبے یا پس منظر سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب انہوں نے پاراچنار میں کام کیا تو انہوں نے دیکھا کہ وہاں ایک مہینے میں اندازاً تیس نوجوان خودکشی کی جانب جاتے ہیں۔ ایسے ہی سابقہ فاٹا، شمالی علاقہ جات، چترال وغیرہ کے اعداد و شمار ہیں۔ تو یہ بہت پریشان کن صورت حال ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں لوگ خودکشی پر بات نہیں کرتے بلکہ ڈاکٹرز مایوسی کے متعلق سوال کرنے سے کتراتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس بارے میں بات کرنا مریضوں کو خودکشی کی جانب لے جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں قومی سطح پر خود کشی سے متعلق شعور دینے کی مہم کا آغاز کرنا چاہئے جس میں میڈیا کے ذریعے لوگوں کو بتایا جائے کہ ذہنی مسائل عام ہیں اور ڈپریشن یا دوسری کوئی ذہنی بیماری چھپانے سے بڑھے گی نہ کہ ختم ہو جائے گی۔

انہون نے کہا کہ ہمارا قانون سیلف ہارم یا خود کو نقصان دینے والے شخص کو مجرم بناتا ہے۔ جب کہ یہ مکمل خود کشی کی جانب پہلا قدم ہے۔ ایسا شخص جو ذہنی بیماری یا دباؤ یا معاشرتی مسائل کی وجہ سے مایوسی کی اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو یہ خودکشی کی جانب پہلا قدم ہے۔

مگر ہم ایسے شخص کو مجرم بنا رہے ہیں، قانون بھی اس کے خلاف ہے، میڈیکو لیگل بھی اس کے خلاف بن رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر کوئی لڑکی ہے وہ کسی دوائی کی زیادہ مقدار لے لیتی ہے، اسے ضلعی ہسپتال لے کر جاتے ہیں وہاں اس کی زندگی کو بچانے کے بجائے اہسپتال والے پولیس کو بلانے کے چکر میں پڑ جاتے ہیں۔ پولیس کا سسٹم ایسا ہے کہ وہ لوگوں کی مدد کرنے کی بجائے ان کے لئے پریشانی کھڑی کرتے ہیں تو ایسے میں خاندان کے لئے یہ معاملہ زیادہ اہم ہوجاتا ہے کہ ہم اس معاملے کو رفع دفع کیسے کریں، چھپائیں کیسے۔ ایسے میں جو مدد متاثرہ فرد کو چاہئے تھی کہ کوئی سمجھدار ڈاکٹر آ کر اسے دیکھتا کہ اس کی کیا حالت ہے؟ خودکشی کا کتنا رسک ہے؟ اور کیا ڈپریشن کی علامتیں ہیں۔ کیا اس کو علاج کی ضرورت ہے یا اس کو سائکاٹرسٹ کو ریفر کر دیں وہ پراسیس بالکل نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں خودکشی کی کوشش کو ڈی کرمنالائز کرنا، قانونی اور معاشرتی طور پر بہت اہم ہے۔