کانفرنس کے منتظمین میں شامل پاکستانی سینیٹر مشاہد حسین سید نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ ایشیئن پارلیمنٹری اسمبلی کا اب تک کا سب سے بڑا اجلاس ہے اور اس میں ایشیائی ممالک کو درپیش مسائل اور ان کے حل کے لیے مشترکہ سوچ زیر بحث آئے گی۔
اسلام آباد —
ایشیئن پارلیمنٹری اسمبلی کی تین روزہ کانفرنس اتوار کو اسلام آباد میں شروع ہوئی جس کا موضوع ’’ایشیا کی صدی، تعاون برائے توانائی، معیشت اور ماحولیات‘‘ ہے۔
اس کانفرنس کی میزبانی پاکستان کا ایوان بالا کر رہا ہے اور اس میں رکن ممالک کے تقریباً دو سو مندوبین شرکت کررہے ہیں۔
منتظمین کے مطابق کانفرنس میں رکن ملکوں کی پارلیمان کے 6 اسپیکرز، 12 ڈپٹی اسپیکرز بھی شریک ہو رہے جب کہ 30 ممالک نے اپنے نمائندوں کی شرکت کی یقین دہائی کروائی ہے۔
کانفرنس کے منتظمین میں شامل پاکستانی سینیٹر مشاہد حسین سید نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ ایشیئن پارلیمنٹری اسمبلی کا اب تک کا سب سے بڑا اجلاس ہے اور اس میں ایشیائی ممالک کو درپیش مسائل اور ان کے حل کے لیے مشترکہ سوچ زیر بحث آئے گی۔
’’سیاسی و اقتصادی توازن مغرب سے مشرق منتقل ہورہا ہے اور اکیسویں صدی ایشیا کی صدی ہے۔ اور ایشیا کے مسائل ایشیا کے حل یہیں ڈھونڈے جائیں اور قیادت وہ ویژن دے کہ وہ مسئلے خود حل کیے جائیں نا کہ باہر کے لوگ اسے حل کریں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں مندوبین کی شرکت اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ یہ ممالک نہ صرف اپنے مسائل کو مل بیٹھ کر گفتگو کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں بلکہ اس کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
یہ اجلاس ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب پاکستان میں توانائی کا بحران شدت اختیار کر چکا ہے جس کی وجہ سے اس کی معیشت بھی شدید متاثر ہورہی ہے۔
پاکستان کی موجودہ حکومت ان مسائل کے حل کو اپنی اولین ترجیحات قرار دیتے ہوئے حالیہ مہینوں میں چین سمیت پڑوسی ممالک سے تعاون حاصل کرنے کے لیے بھی اقدامات میں مصروف نظر آئی۔ ان میں قابل ذکر چین کے ساتھ تجارتی راہداری کے منصوبے پر پیش رفت کے علاوہ ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کے مجوزہ منصوبے پر عملدرآمد کے لیے سیاسی عزم کا اظہار بھی شامل ہے۔
اس کانفرنس کی میزبانی پاکستان کا ایوان بالا کر رہا ہے اور اس میں رکن ممالک کے تقریباً دو سو مندوبین شرکت کررہے ہیں۔
منتظمین کے مطابق کانفرنس میں رکن ملکوں کی پارلیمان کے 6 اسپیکرز، 12 ڈپٹی اسپیکرز بھی شریک ہو رہے جب کہ 30 ممالک نے اپنے نمائندوں کی شرکت کی یقین دہائی کروائی ہے۔
کانفرنس کے منتظمین میں شامل پاکستانی سینیٹر مشاہد حسین سید نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ ایشیئن پارلیمنٹری اسمبلی کا اب تک کا سب سے بڑا اجلاس ہے اور اس میں ایشیائی ممالک کو درپیش مسائل اور ان کے حل کے لیے مشترکہ سوچ زیر بحث آئے گی۔
’’سیاسی و اقتصادی توازن مغرب سے مشرق منتقل ہورہا ہے اور اکیسویں صدی ایشیا کی صدی ہے۔ اور ایشیا کے مسائل ایشیا کے حل یہیں ڈھونڈے جائیں اور قیادت وہ ویژن دے کہ وہ مسئلے خود حل کیے جائیں نا کہ باہر کے لوگ اسے حل کریں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں مندوبین کی شرکت اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ یہ ممالک نہ صرف اپنے مسائل کو مل بیٹھ کر گفتگو کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں بلکہ اس کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
یہ اجلاس ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب پاکستان میں توانائی کا بحران شدت اختیار کر چکا ہے جس کی وجہ سے اس کی معیشت بھی شدید متاثر ہورہی ہے۔
پاکستان کی موجودہ حکومت ان مسائل کے حل کو اپنی اولین ترجیحات قرار دیتے ہوئے حالیہ مہینوں میں چین سمیت پڑوسی ممالک سے تعاون حاصل کرنے کے لیے بھی اقدامات میں مصروف نظر آئی۔ ان میں قابل ذکر چین کے ساتھ تجارتی راہداری کے منصوبے پر پیش رفت کے علاوہ ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کے مجوزہ منصوبے پر عملدرآمد کے لیے سیاسی عزم کا اظہار بھی شامل ہے۔