تجزیہ کاروں کا کہنا ہے چین کی طرف سے مشرقی بحیرہٴ چین میں دفاع کا نیا فضائی زون تشکیل دیے جانے کا متنازع اقدام زیر بحث آنے والا اہم موضوع ہوگا
واشنگٹن —
امریکی نائب صدر جو بائیڈن آئندہ ہفتے چین روانہ ہوں گے، جس علاقائی دورے میں وہ جنوبی کوریا اور جاپان بھی جائیں گے۔
چین کے دورے میں، معاشی معاملات اور تعاون کے دیگر شعبہ جات پر دھیان مرکوز رہے گا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے چین کی طرف سے مشرقی بحیرہٴ چین میں دفاع کا نیا فضائی زون تشکیل دیے جانے کا متنازع اقدام زیر بحث آنے والا اہم موضوع ہوگا۔
’وائس آف امریکہ‘ کے نمائندے، بِل آئدے نے بیجنگ سے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ امریکی انتظامیہ کے سینئر عہدے داروں کا کہنا ہے کہ تناؤ کے ماحول کو کم کرنے کی غرض سے بائیڈن چین کی طرف سے تشکیل دیے جانے والے دفاع کے نئے فضائی زون کا براہِ راست ذکر کریں گے، تاہم وہ چین کے اِس فیصلے پر باضابطہ طور پر سفارتی احتجاج پر منبی مراسلہ نہیں پہنچائیں گے۔
اُن کا کہنا ہے کہ یہ دورہ، اِس فیصلے سے متعلق، چین کی قیادت سے براہِ راست بات چیت کا ایک موقع فراہم کرگے گا، تاکہ امریکہ کی تشویش پر آواز بلند کی جائے اور چین کے اقدام کے بارے میں وضاحت حاصل کی جا سکے۔
جوناتھن پولاک، واشنگٹن ڈی سی میں ’برکنگز انسٹی ٹیوشن‘ سے وابستہ ایک سینئر فیلو ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس دورے میں باقی معاملات کو زیر بحث لانے کا موقع کم ہی ملے گا۔
اُن کا کہنا ہے کہ فضائی دفاع کے زون کا معاملہ نہ صرف بیجنگ، بلکہ ٹوکیو اور سیول میں بھی زیر غور آئے گا۔
چین کے ہمسایہ ممالک نےمشرقی بحیرہ چین میں ایسی فضائی حدود تشکیل دینے کے اس فیصلے پر سخت احتجاج کیا ہے، اور امریکہ، جاپان اور جنوبی کوریا کی فوجوں نے چینی حکام کو بتائے بغیر اس علاقے میں اپنی پروازیں روانہ کی ہیں۔ چین نے متنبہ کیا ہے کہ اس زون میں داخل ہونے والی ایسی پروازیں جو اپنی شناخت نہیں کراتیں، اُنھیں فوجی کارروائی کا سامنا ہوگا۔
جوابی طور پر، چین نے اِن فضائی حدود میں چوکسی کے اپنے طیارے روانہ کرنا شروع کیے ہیں۔ جاپان اور جنوبی کوریا کا کہنا ہے کہ وہ اپنے فضائی حدود کو بڑھانے کے بارے میں غور کر رہے ہیں۔
پولاک کا کہنا ہے کہ اس لفاظی کے پیچھے تشویش کا اصل معاملہ یہ ہے کہ آخر چینی فوج اپنی طرف سے تشکیل دیے جانے والے فضائی زون پر عمل درآمد کیسے کرائے گی۔
چین کے دورے میں، معاشی معاملات اور تعاون کے دیگر شعبہ جات پر دھیان مرکوز رہے گا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے چین کی طرف سے مشرقی بحیرہٴ چین میں دفاع کا نیا فضائی زون تشکیل دیے جانے کا متنازع اقدام زیر بحث آنے والا اہم موضوع ہوگا۔
’وائس آف امریکہ‘ کے نمائندے، بِل آئدے نے بیجنگ سے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ امریکی انتظامیہ کے سینئر عہدے داروں کا کہنا ہے کہ تناؤ کے ماحول کو کم کرنے کی غرض سے بائیڈن چین کی طرف سے تشکیل دیے جانے والے دفاع کے نئے فضائی زون کا براہِ راست ذکر کریں گے، تاہم وہ چین کے اِس فیصلے پر باضابطہ طور پر سفارتی احتجاج پر منبی مراسلہ نہیں پہنچائیں گے۔
اُن کا کہنا ہے کہ یہ دورہ، اِس فیصلے سے متعلق، چین کی قیادت سے براہِ راست بات چیت کا ایک موقع فراہم کرگے گا، تاکہ امریکہ کی تشویش پر آواز بلند کی جائے اور چین کے اقدام کے بارے میں وضاحت حاصل کی جا سکے۔
جوناتھن پولاک، واشنگٹن ڈی سی میں ’برکنگز انسٹی ٹیوشن‘ سے وابستہ ایک سینئر فیلو ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس دورے میں باقی معاملات کو زیر بحث لانے کا موقع کم ہی ملے گا۔
اُن کا کہنا ہے کہ فضائی دفاع کے زون کا معاملہ نہ صرف بیجنگ، بلکہ ٹوکیو اور سیول میں بھی زیر غور آئے گا۔
چین کے ہمسایہ ممالک نےمشرقی بحیرہ چین میں ایسی فضائی حدود تشکیل دینے کے اس فیصلے پر سخت احتجاج کیا ہے، اور امریکہ، جاپان اور جنوبی کوریا کی فوجوں نے چینی حکام کو بتائے بغیر اس علاقے میں اپنی پروازیں روانہ کی ہیں۔ چین نے متنبہ کیا ہے کہ اس زون میں داخل ہونے والی ایسی پروازیں جو اپنی شناخت نہیں کراتیں، اُنھیں فوجی کارروائی کا سامنا ہوگا۔
جوابی طور پر، چین نے اِن فضائی حدود میں چوکسی کے اپنے طیارے روانہ کرنا شروع کیے ہیں۔ جاپان اور جنوبی کوریا کا کہنا ہے کہ وہ اپنے فضائی حدود کو بڑھانے کے بارے میں غور کر رہے ہیں۔
پولاک کا کہنا ہے کہ اس لفاظی کے پیچھے تشویش کا اصل معاملہ یہ ہے کہ آخر چینی فوج اپنی طرف سے تشکیل دیے جانے والے فضائی زون پر عمل درآمد کیسے کرائے گی۔