افغان صدر کے ترجمان نے کہا ہے کہ اتحادی حکومت نہیں بنے گی اور صدر اشرف غنی مزید ایسا کوئی سیاسی نظام قبول نہیں کریں گے۔ انھوں نے یہ بات ٹی وی آشنا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔
ترجمان صدیق صدیقی سے پوچھا گیا کہ دوسری مدت کے لیے صدر کی حلف برادری کی تقریب کیا امریکی دباؤ پر مؤخر کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغان حکومت نے یہ فیصلہ کرتے ہوئے قومی مفاد کو پیش نظر رکھا ہے۔
انھوں نے کہا کہ امریکی اتحادیوں کے خیال میں چونکہ یہ ہفتہ تشدد کی کارروائیاں بند رکھنے کے لیے مختص ہے اس لیے یہ بات مناسب ہوگی کہ امن عمل کو اولیت دینے کے لیے حلف برداری کی تقریب مؤخر کی جائے۔
سیاسی تنازع کو ختم کرنے کے لیے قومی حکومت کی تشکیل کے سوال پر ترجمان نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ صدر غنی تمام سیاسی رہنماؤں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے خواہاں ہیں اور چاہیں گے کہ وہ نئی حکومت کا حصہ بنیں۔ لیکن پانچ برس تک جیسی اتحادی حکومت قائم رہی، اس قسم کا سیاسی نظام یا ڈھانچہ مزید نہیں ہوگا۔ صدارتی انتخابی مہم کے دوران صدر غنی نے یہ بات واضح کردی تھی کہ اگلی حکومت میں چیف اگزیکٹو کا کوئی عہدہ نہیں ہوگا۔
ترجمان نے کہا کہ اتحادی حکومت کی جگہ آئندہ کی حکومت کا ڈھانچہ اسلامی جمہوریہ افغانستان کی طرز کا ہوگا۔
ادھر ریپبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن کانگریس، مائیکل والز نے کہا ہے کہ ہم سب افغانستان میں امن اور استحکام کے خواہاں ہیں۔
مائیکل والز مسلح افواج کی قائمہ کمیٹی کے رکن ہیں۔ وائس آف امریکہ کی افغان سروس کو انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ اگر طالبان امن کے لیے سنجیدہ ہیں تو انھیں القاعدہ اور داعش کے ساتھ مراسم ختم کرنے ہوں گے اور افغان حکومت اور افغان آئین کو تسلیم کرنا ہوگا۔ امن عمل اسی طرح آگے بڑھ سکتا ہے۔
عبداللہ عبداللہ کی جانب سے حکومت تشکیل دینے سے متعلق سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ حالیہ انتخابات کے نتیجے کے مطابق افغان حکومت کو تسلیم کرنا ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ غیر یقینی صورتحال کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔
انھوں نے کہا کہ صدر اشرف غنی سب کی شمولیت پر مشتمل حکومت تشکیل دیں تاکہ ملکی استحکام کو یقینی بنایا جاسکے اور طالبان کے ساتھ مشکل مذاکرات کے معاملے کو آگے بڑھایا جاسکے۔