امریکی وزیر دفاع کا غیر اعلانیہ دورہ افغانستان

امریکی وزارت دفاع کی طرف سے رواں ہفتے کانگریس میں پیش کی گئی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ افغانستان میں سلامتی کی صورت حال ابتر ہو رہی ہے۔

امریکہ کے وزیر دفاع ایشن کارٹر غیر اعلانیہ دورے پر جمعہ کو افغانستان پہنچے، جہاں اُنھوں نے امن و امان کی صورت کا جائزہ لیا۔

وہ ایسے وقت افغانستان پہنچے جب شدت پسند گروہ ’داعش‘ کے حامی افغانستان کے مشرقی حصے میں قدم جمانے میں مصروف ہیں۔

ایش کارٹر افغانستان میں امریکی فوجیوں سے بھی ملاقات کی۔

دفاعی تجزیہ کار لفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) طلعت مسعود نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ دورہ بہت اہم ہے کیوں کہ افغانستان میں سلامتی کی صورت حال پر امریکہ کو بھی تشویش ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ایک اور مسئلہ ’داعش‘ کا ہے، جس کے بارے میں امریکہ اور افغانستان دونوں کو فکر ہے۔

افغانستان میں حالیہ مہینوں میں طالبان کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے اور گزشتہ سال کی نسبت افغان فورسز کا جانی نقصان زیادہ ہوا ہے۔

امریکی وزارت دفاع کی طرف سے رواں ہفتے کانگریس میں پیش کی گئی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ افغانستان میں سلامتی کی صورت حال ابتر ہو رہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کے مقابلے رواں سال افغانستان کے دارالحکومت کابل میں زیادہ بڑے حملے ہوئے۔

جب کہ رواں سال ستمبر میں افغانستان کے شمالی شہر قندوز میں طالبان نے کچھ روز کے لیے قبضہ کر لیا تھا، لیکن بعد ازاں افغان فورسز نے امریکی فورسز کی مدد سے کارروائی کرے وہ قبضہ چھڑوا لیا تھا۔

اس حملے کے بعد قندھار میں حساس ہوائی اڈے پر طالبان نے حملہ کیا جس میں سکیورٹی فورسز، پولیس اور عام شہریوں سمیت کم از کم 60 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

افغانستان میں امن و امان کی اس بگڑتی ہوئی صورت حال کے تناظر میں امریکہ کے صدر براک اوباما نے رواں سال اکتوبر میں افغانستان میں امریکی افواج کے انخلاء کے عمل کو سست کرنے کا اعلان کیا تھا، جس کے تحت اس وقت افغانستان میں تعینات 9,800 امریکی فوجی 2016ء کے اختتام تک موجود رہیں گے۔

افغانستان میں موجود یہ فوجی افغان سکیورٹی فورسز کی تربیت کے ساتھ ساتھ انسداد دہشت گردی کے آپریشنز میں بھی حصہ لیں گے۔

اُدھر افغان فورسز نے جمعہ کو صوبہ ہلمند کے مرکزی ضلع سے طالبان کو باہر دھکیل دیا۔ رواں ماہ طالبان نے ضلع خان نشین پر قبضہ کر لیا تھا۔