سابق وزیراعظم نوازشریف نے 1990 کے دہائی میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور مہران بینک کے مالک یونس حبیب سے رقم وصول کرنے کی تردید کردی ہے۔
عدالتی نوٹس پر نواز شریف نے اصغر خان کیس میں چار صفحات پر مشتمل اپنا تحریری جواب سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا جس میں انہوں نے نوے کی دہائی میں ائی ایس آئی کے سربراہ اسد درانی یا ان کے نمائندے سے 35 لاکھ جبکہ یونس حبیب سے بھی الترتیب 35 اور 25 لاکھ روپے لینے کی تردید کی۔
نواز شریف نے اپنے تحریری جواب میں موقف اختیار کیا ہے کہ انہوں نے1990 کی دہائی میں الیکشن مہم کے لئے آئی ایس آئی سے کوئی رقم نہیں لی، اس کے علاوہ انہوں نے یونس حبیب یا ان کے کسی نمائندے سے بھی کوئی رقم نہیں لی، اس حوالے سے وہ ایف آئی اے کو 14 ستمبر 2015 کو بیان ریکارڈ کروا چکے ہیں۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بھی آئی ایس آئی سے 1990 کے انتخابات کیلئے رقم لینے کا الزام مسترد کرتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ بطور امیر جماعت وہ ہر تحقیقاتی ٹیم، کمیشن اور فورم کے سامنے پیش ہونے کو تیار ہیں۔ جماعت اسلامی 2007 میں بھی بیان حلفی میں تمام الزامات کی تردید کر چکی ہے۔
سپریم کورٹ نے اصغر خان عملدرآمد کیس میں آئی ایس آئی سے رقم وصول کرنے کے سلسلے میں نواز شریف، جاوید ہاشمی، عابدہ حسین سمیت 21 شہریوں کے علاوہ متعلقہ فوجی افسران، ڈی جی نیب اور ایف آئی اے سے جواب طلب کیا تھا۔
گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ نے نوازشریف کو ایک گھنٹے میں عدالت میں پیش ہونے کا نوٹس جاری کیا تھا، تاہم، ان کی عدم پیشی پر سماعت 12 جون تک ملتوی کردی گئی تھی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے تھے نوازشریف کو عدالت میں آکر بتانا ہوگا کہ انہوں نے پیسے لیے یا نہیں۔
1990ء کی دہائی میں انتخابات میں دھاندلی کے لیے سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم سے متعلق اُس وقت کے ایئرفورس کے سربراہ اصغر خان نے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا تھا۔
بعد ازاں 2012 میں سپریم کورٹ نے اس کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا تھا جس میں سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی فوج کی بدنامی کا باعث قرار دیتے ہوئے ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ یہ دونوں اس الزام کو مسترد کرتے رہے ہیں۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ خفیہ اداروں کا کام الیکشن سیل بنانا نہیں بلکہ سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔
اس کیس کے فیصلے کے بعد مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی کی جانب سے نظر ثانی کی درخواستیں دائر کی گئی تھیں، جسے عدالت عظمیٰ نے مسترد کردیا تھا اور وفاقی حکومت کو اصغر خان کیس فیصلے پر عملدرامد کا حکم دیا تھا۔