صحافیوں کے حقوق پر کام کرنے والی ملکی اور بین الاقوامی تنظیموں اور ایڈووکیٹس نے پاکستانی حکام سے مطالبہ کیا کہ اسد علی طور کو فوری اور غیر مشروط طور پر رہا کیا جائے اور اس کے صحافتی کام کے لیے اسے ہراساں کرنا بند کیا جائے۔
اسد طور کو ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ نے دارالحکومت اسلام آباد سے گرفتار کیا تھا۔
پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ایف آئی اے نے پیر کے روز فری لانس جرنلسٹ اسد علی طور کو سپریم کورٹ کے ججوں کے خلاف مبینہ مہم کے سلسلے میں پوچھ گچھ کے لیے پیش ہونے کے حکم کے بعد گرفتار کیا۔
اسد طور پولیٹیکل ایشوز سے متعلق ایک یوٹیوب چینل چلاتے ہیں جہاں ایک لاکھ ساٹھ ہزار کے قریب سبسکرائبرز ہیں۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے پروگرام ڈائریکٹر کارلوس مارٹنیز ڈی لا سرنا کا کہنا ہے کہ ہم پاکستانی صحافی اسد علی طور کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کی بظاہر خلاف ورزی کرنے پر گرفتاری سے حیران ہیں۔
"پاکستانی حکام کو فوری طور پر اور غیر مشروط طور پر طور کو رہا کرنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ صحافیوں کو عدلیہ سمیت اداروں پر تنقیدی رپورٹنگ کرنے پر انتقامی کارروائی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔"
صحافی اسد طور کی وکیل ایمان زینب مزاری نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہو بتایا کہ "مزے کی بات یہ ہے کہ جس الزام سے ہم واقف تھے اور جس کا مختصراً تذکرہ نوٹسز میں کیا گیا تھا، وہ سپریم کورٹ کے ججوں کے خلاف مبینہ طور پر بدنیتی پر مبنی مہم تھی اور قیاس کے مطابق انکوائری کا مقصد بھی یہی تھا۔ اب دلچسپ بات یہ ہے کہ ایف آئی آر درج کی گئی ہے جس میں اس میں پریونشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ کی دفعہ 9، 10 اور 24 کا ذکر کیا گیا ہے اور ایف آئی آر کے پورے مواد میں کہیں بھی سپریم کورٹ کے کسی جج کا ذکر نہیں ہے۔ جس کی انکوائری کی جا رہی تھی۔ لہٰذا، ایف آئی آر اور انکوائری بالکل مختلف ہے"۔
ایمان مزاری کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے نے دو نوٹسز جاری کیے تھے۔ ایک 23 فروری کو پیشی کے لیے اور ایک 26 فروری کو پیشی کے لیے۔ 23 فروری یعنی گزشتہ جمعہ کے روز حکام نے اسد طور کو ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ ہیڈکوارٹر میں قانونی نمائندگی تک رسائی کے بغیر حراست میں رکھا اور پوچھ گچھ کی۔ تقریباً آٹھ گھنٹے بعد انہیں رہا کیا گیا۔ ان سے صرف یہ سوال پوچھا گیا کہ اگر وہ اسے صحافت کو سمجھتے ہیں تو وہ چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے ججز کے بارے میں تضحیک آمیز ریمارکس کیوں دیتے ہیں؟ اور ان سے بار بار اپنے ذرائع کا انکشاف کرنے کے لیے کہا گیا۔
’’ 26 فروری کو جب انہیں حراست میں لیا گیا تو ہم ایف آئی اے ساتھ گئے تھے انہوں نے ہمیں اسد کے ساتھ اند ر نہیں جانے دیا اور اپنے داخلی دروازے کو تالا لگا کر عمارت کی لائٹس بند کر دیں۔ پھر رات 9 بجے ہمیں اس کی طرف سے لکھا ہوا خط اور اس کی گاڑی کی چابیاں دے کر مطلع کیا گیا کہ اسے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ہم نے تصدیق کی کہ آیا اسے باضابطہ طور پر گرفتار کیا گیا ہے۔ انہوں نے اس کی تصدیق کی لیکن انہوں نے کوئی ایف آئی آر یا اس کی کوئی تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔‘‘
ہیومن رائٹس کمیشن آف سے وابستہ منیزے جہانگیر نے وائس آف امریکہ کے فیس بک لائیو میں بتایا کہ اسد طور کی گرفتاری سے متعلق اگر آپ ایف آئی آر پڑھیں تو اس میں انہوں نے جو تفتیش کی ہے وہ یہ کہ انہوں نے جسٹس قاضی فائض عیسی کی ایک ججمنٹ پر تنقید کی ہے۔ مگر انہوں نے اسد پر سول بیوروکریسی کےخلاف کام کرنے کے الزامات لگائے ہیں اور یہ کہ انہوں نے عوام میں انتشار پھیلانے کی کوشش کی ہے۔
"انہوں نے جو ریفرینس دیا ہے ، وہ ان کی ان تمام ٹویٹس کا دیا ہے، جو انہوں نے کبھی کی تھیں۔ اس کے ٹویٹر کے ہینڈل اور یوٹیوب ہینڈل کا ریفرنس دیا ہے۔ اگر انہوں نے واقعی میں اتنا بڑا جرم کیا ہے تو بتائیں تو سہی کہ وہ کون سی ایسی ٹویٹس تھیں جس سے وہ انتشار پھیلا رہے تھے"۔
ایف آئی اے یا سرکاری حکام نے فوری طور پر اسد طور کی حراست پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
پاکستان پریس فاونڈیشن نے ایک پریس ریلیز میں اسد علی طور کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ بار بار سمن جاری کرنا، گھنٹوں کی نظربندی اور گرفتاری آزادی اظہار کے آئینی حق کی خلاف ورزی ہے۔
اسد طور نے حال ہی میں یوٹیوب اور ایکس پر پاکستان کے چیف جسٹس اور ملک کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کی تھی۔ جو پہلے ٹویٹر کے نام سے جانا جاتا تھا۔
ایمان مزاری نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اسد کی والدہ کی مدعیت میں منگل کی صبح ایک درخواست دائر کی تھی جس میں ہائی کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ اسد طور کی گرفتاری اور نظر بندی غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیتے ہوئے ان کی عدالت میں پیشی کا حکم دیا جائے۔
عدالت کی اگلی تاریخ 3 مارچ کو ہے۔ ایمان مزاری پر امید ہیں کہ وہ اسد طور کو جلد ہی باہر نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔
اسد طور پر اس سے پہلے بھی مئی 2021 تين نامعلوم افراد نے اسلام آباد میں ان کے فليٹ ميں زبردستی داخل ہو کر تشدد کیا تھا۔ اسد طور کے دعوے کے مطابق حملہ آوروں میں سے ایک شخص نے ان کے سر پر پستول رکھ کر اپنا تعارف ملک کی ایک خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ایک اہل کار کے طور پر کرایا ۔
اپارٹمنٹ میں پیش آنے والے اس واقعے میں اسد طور کے مطابق انہیں مارا پیٹا گیا باندھا گیا اور گلا گھونٹا گیا۔