تانگ ہوجان چین سے تعلق رکھنے والے ایک سوفٹ ویئر ڈیویلپر ہیں۔ بیجنگ کے نواح میں وہ اپنی فیملی کے ساتھ رہتے ہیں۔ انہیں سب سے زیادہ خوشی اپنی دو سال کی بیٹی کے ساتھ کھیل کر اور وقت گزار کر حاصل ہوتی ہے۔ وہ بچوں سے بہت پیار کرتے ہیں لیکن ان کے مطابق اس بات کا کم ہی امکان ہے کہ وہ ایک اور بچہ پیدا کریں گے۔
تانگ اور ان جیسے ان گنت لوگوں کے ایسے فیصلے نہ صرف چین بلکہ دنیا میں آبادی کے اعداد و شمار پر اثرانداز ہورہے۔ اقوامِ متحدہ کی جاری کردہ تفصیلات کے مطابق دنیا کی آبادی منگل کو آٹھ ارب ہوجائے گی اور آئندہ آنے والے برسوں میں اس کے اعداد و شمار میں کئی ایسی تبدیلیاں آنے والی ہیں جو بہت کچھ بدل کر رکھ دیں گی۔
انتالیس سالہ تانگ کے مطابق ان کے کئی شادی شدہ دوستوں کا ان کی طرح صرف ایک بچہ ہے اور وہ مزید بچے پیدا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ جب کہ عام طور پر نوجوان بچے پیدا کرنا تو رہا ایک طرف، شادی ہی میں دل چسپی نہیں رکھتے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق بچوں کی دیکھ بھال پر آنے والے اخراجات کی وجہ سے چین میں شادی شدہ جوڑے بچے پیدا نہیں کررہے ہیں۔چین میں اکثر خاندانوں میں میاں بیوی کام کرتے ہیں اور انہیں بچوں کی دیکھ بھال کے لیے دادا دادی یا نانا نانی کی مدد بھی نہیں مل پاتی کیوں کہ وہ ان سے بہت دور رہائش پذیر ہوتے ہیں۔
تانگ ہوجان کے مطابق بچوں کی تعداد میں کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ چین میں شادیاں بہت دیر میں ہورہی ہیں جس کی وجہ سے حمل ٹھہرنے میں بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے نزدیک زیادہ عمر میں شادی سے بھی شرحِ پیدائش متاثر ہورہی ہے۔
SEE ALSO: جب روس نے امریکہ کو لاکھوں ایکڑ زمین کوڑیوں کےبھاؤ فروخت کیون چائلڈ پالیسی سے تین بچوں تک
چین کئی دہائیوں سے بڑھتی ہوئی آبادی کو روکنے کے لیے کوشش کر رہا تھا۔ چین میں 1980 سے 2015 تک سختی کے ساتھ ون چائلڈ پالیسی پر عمل درآمد کرایا گیا۔ اس پالیسی کی وجہ سے چین کی آبادی کنٹرول بھی ہوئی لیکن چین آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک رہا۔
لیکن اب اقوامِ متحدہ نے یہ توقع ظاہر کی ہے کہ چین کی آبادی آئندہ برس سے سکڑنا شروع ہوجائے گی اور بھارت دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا۔
چین میں 2021 تک شرحِ پیدائش 1.16 تھی جو اقتصادی تعاون کی بین الاقوامی تنظیم او ای سی ڈی کے مستحکم آبادی کے لیے مقرر کردہ معیار 2.1 بھی کم ہے۔
آبادی کے اعدادو شمار میں تبدیلی کے اثرات پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق کرونا وائرس کی وبا کے دوران پیش آنے والی مشکلات اور چینی حکومت کے ان پر قابو پانے کے لیے کیے گئے کڑے اقدامات نے لوگوں کی بچے پیدا کرنے کی خواہش کو متاثر کیا ہے۔
ماہرین کے مطابق رواں برس چین کی تاریخ میں سب سے کم بچے پیدا ہوئے ہیں۔ چین میں رواں برس پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد ایک کروڑ سے بھی نیچے آچکی ہے۔ گزشتہ برس یہ تعداد ایک کروڑ چھ لاکھ رہی تھی جو کہ 2020 کے مقابلے میں ساڑھے 11 فی صد کم تھی۔
چین نے گزشتہ سال سے تین تک بچے پیدا کرنے کی اجازت دے دی ہے اور مناسب شرحِ پیدائش تک پہنچنے کے لیے اقدامات کا اعلان بھی کیا ہے۔
SEE ALSO: ایک قریبی جنرل کی توسیع اور تین کو ترقی:'صدر شی فوج پر اپنی گرفت بڑھا رہے ہیں'’چین میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے‘
منصوبہ سازوں کے لیے آبادی میں بوڑھے افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد نے کئی الگ نوعیت کے مسائل پیدا کیے ہیں۔
چائنیز یونیورسٹی آف ہانگ کانگ سے وابستہ پروفیسر شین جیانفا کا کہنا ہے کہ ہماری توقع ہے کہ چین میں عمر رسیدہ آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔ یہ چین کے لیے انتہائی سنجیدہ صورتِ حال ہے جو آج سے 20 برس کے مقابلے میں بالکل مختلف ہے۔
چین کی آبادی میں 65 بر سے زائد عمر کے افراد کی شرح اس وقت 13 فی صد سے زائد ہے لیکن اس میں اب تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ کام کرنے والی افرادی قوت میں کمی کی وجہ سے تیزی سے بڑھتے ہوئے عمر رسیدہ افراد کی دیکھ بھال ایک چیلنج کی صورت اختیار کررہی ہے۔
پروفیسر شین کا کہنا ہےکہ گزشتہ چند برسوں سے عمر رسیدہ افراد کی شرح بہت زیادہ ہوگئی ہے۔ اس لیے حکومت کو اس کے لیے پہلے سے تیاری کرنا ہوگی۔
بوڑھے افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد سے پیدا ہونے والے مسائل کے باعث چین نے بچوں کی پیدائش کی شرح بڑھانے کے لیے شادی شدہ جوڑوں کی حوصلہ افزائی بھی شروع کی ہے۔
SEE ALSO: بارش کے قطروں میں تاریخ کے کیا راز چھپے ہیں؟اس مقصد کے لیے حکومت جوڑوں کو ٹیکس میں رعایت، بچوں کی پیدائش کے بعد زیادہ چھٹیاں، میڈیکل انشورنس اور مکان کی تعمیر پر سبسڈی جیسی مراعات متعارف کراچکی ہے۔
لیکن آبادیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات کافی نہیں ہیں۔
ان کے مطابق چین میں تعلیم کے اخراجات میں اضافہ، کم اجرتیں، کام کے لیے سخت محنت اور طویل دورانیے جیسے محرکات کے علاوہ کرونا کی روک تھام کے لیے حکومت کےکڑے اقدامات نے معیشت کی مجموعی صورتِ حال کو متاثر کیا ہے۔ اس کی وجہ سے چینی شہریوں میں بھی عدم اطمینان اور بے چینی پائی جاتی ہے۔
ہانگ کانگ یونیورسٹی کے ایک اور پروفیسر اسٹارٹ بیسٹن کا کہنا ہے کہ نوجوانوں کے لیے روزگار کے محدود ہوتے امکانات بھی ایک اہم سبب ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ جب لوگوں کو روزگار ہی نہیں مل رہا ہوگا تو وہ مزید بچے کیوں پیدا کریں گے؟
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں۔