|
دمشق میں المجتہد اسپتال کے باہر لوگوں کا ہجوم ہے۔ وہ دیوار پر چپکائی گئی تصویروں کو دیکھ رہے ہیں۔ یہ مسخ شدہ اور خوف طاری کرنے والی تصویریں ان قیدیوں کی ہیں جو جیل میں برسوں تک تشدد جھیلنے کے نتیجے میں جان کی بازی ہار گئے تھے۔
تصویروں والی دیوار کے سامنے جمع مجمع میں عورتیں اور مرد شامل ہیں۔ ہر ایک کسی ایک کی تلاش میں ہے۔ بہت سے لوگ کچھ بولے بغیر خاموشی سے لوٹ رہے ہیں۔
ایک نوجوان عورت جس نے اپنے سیاہ بال باندھ رکھے ہیں، ایک تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چلا کر کہتی ہے۔ آپ کو ہمیشہ سے اس کے بارے میں علم تھا۔ آپ نے کچھ نہیں کیا۔
مجمع خاموش ہے۔ اس خاموشی میں ایک شخص کی تشفی بھری آواز ابھرتی ہے۔ مرنے کے بعد اللہ انصاف کرے گا۔
عورت چلاتی ہوئی چلی جاتی ہے۔ میں نہیں مانتی، میں نہیں مانتی۔
جیلوں میں ایک لاکھ سے زیادہ قیدی مارے گئے
شام کی صورت حال پر نظر رکھنے والا برطانیہ میں قائم ایک گروپ سیرئین نیٹ ورک فار ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ جیلیں ٹوٹنے کے بعد پتہ چلا ہے کہ ان بند دروازوں کے پیچھے جانے والوں میں سے کم و بیش ایک لاکھ قیدی غائب ہیں۔ جب کہ شام میں لوگوں کا کہنا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
ایک عشرے سے زیادہ عرصہ پہلے شام میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد سے اسد حکومت نے ہر اس شخص کو پکڑ کر جیل میں ڈال دیا جس کے منہ سے مخالفت میں ایک بھی لفظ نکلا تھا۔
تشدد اور جان بچانے کے لیے لاکھوں لوگ بیرونی ملکوں میں فرار ہو گئے۔
دمشق میں لوگ اپنے پیاروں کو ڈھونڈ رہے ہیں
دمشق کی سڑکوں پر آپ جس سے بھی ملیں گے، وہ اپنے کسی ایسے عزیز یا پیارے کا ذکر ضرور کرے گا، جسے وہ ڈھونڈ رہا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ گویا دمشق ایک ایسا آسیب زدہ شہر ہے جہاں سے لاتعداد لوگ غائب ہو چکے ہیں اور ان کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔
کہیں آنسو کی لڑیاں، کہیں فتح کے پرچم
دمشق کی سڑکوں پر جہاں آپ کو نئی نسل کے لوگ حال میں حاصل ہونے والی آزادی کا جشن مناتے دکھائی دیں گے، وہاں اسپتالوں کے باہر عورتیں اور مرد روتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے نظر آئیں گے۔ کچھ پتہ ہے کہ وہ کہاں ہے؟ وہ کہاں ملے گا۔
المجتہد اسپتال کے قریب ایک بیکری اور اموی مسجد ہے۔ بیکری کے باہر روٹی خریدنے والوں کا ہجوم ہے۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے ان کے لاپتہ پیاروں کے بارے میں پوچھ رہا ہے۔
مسجد کے قریب ایک خاتون حبہ الصدفی وی او اے کو بتاتی ہیں کہ وہ خوش نصیب ہیں کہ انہوں نے کسی کو نہیں کھویا۔ ان کے شوہر انس نے تین سال جیل کاٹی ہے جب کہ بھتیجا ابھی لاپتہ ہے۔
گرفتاری اور جیل کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کے شوہر دمشق کے مضافاتی قصبے غوطہ میں بچوں کے لیے کھانا اور دوائیں بھیجتے تھے۔ ان دنوں غوطہ میں باغیوں کے لیے کافی حمایت موجود تھی۔ جسے کچلنے کے لیے اسد حکومت نے 2013 میں وہاں کیمیائی بم گرائے تھے جس سے 1400 سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔
قیدیوں کے بدن پر سلگتے سگریٹ بجھائے جاتے تھے
حبہ الصدفی نے بتایا کہ ان کے شوہر کو شامی سیکیورٹی کے اہل کار پکڑ کر لے گئے اور جیل میں ڈال دیا۔ ان پر بے تحاشہ تشدد کیا جاتا تھا۔ تشدد کرنے والے اپنے جلتے ہوئے سگریٹ ان کے بدن پر مسل کر بجھاتے تھے۔ انہیں کوڑے مارے جاتے تھے۔ تشدد کے یہ نشانات اب بھی ان کے جسم پر موجود ہیں۔
بشارالاسد کی پھانسی کے مطالبے
اسپتال سے جن قیدیوں کی لاشیں مل جاتی ہیں، ان کے عزیز و اقارب تدفین کے لیے انہیں قبرستان لے جاتے ہیں۔ جنازے کے جلوس میں لوگ آنسو بہانے کے ساتھ ساتھ بشارالاسد کو پھانسی دینے کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔
انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے ایک نوجوان مازن الحمدہ کے جنازے کے جلوس میں ایک شخص بتاتا ہے کہ اسپتال سے اس کی لاش کئ قیدیوں کی لاشوں کے ساتھ ملی تھی۔ اسے صیدنایہ جیل میں رکھا گیا تھا۔ اس پر بے پناہ تشدد کیا گیا تھا۔ اتنا زیادہ کہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
دمشق کی سڑکیں اور اسد کے پوسٹر
بشار الاسد دمشق سے فرار ہو کر روس جا چکے ہیں۔ لیکن ان کے پوسٹر دمشق کی سڑکوں پر بکھرے پڑے ہیں۔ وہ جگہ جگہ سے پھٹ چکے ہیں۔ لوگ انہیں اپنے پاؤں کے نیچے روندتے ہوئے گزرتے ہیں۔
مناسب ترین ٹائمنگ ہئیت تحریر الشام کی فتح کا سبب ہے
باغی اسلام پسند عسکری گروپ ہئیت تحریرالشام نے دو ہفتوں کے اندر تمام چھوٹے بڑے شہروں سمیت دمشق کو فتح کر لیا۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ اس شاندار فتح کی وجہ مناسب ترین وقت کا انتخاب ہے۔ باغیوں نے اپنی پیش قدمی اس وقت شروع کی جب اسد کے دو سب سے بڑے حامی روس اور ایران اپنی جنگوں اور مسائل میں گھرے ہوئے تھے۔
آزادی کے جشن، سیلفیاں اور نیا پرچم
اسد دور کے دکھوں اور تکلیفوں کے اظہار کے ساتھ ساتھ دمشق میں آزادی کے جشن بھی دکھائی دیتے ہیں۔ امیہ اسکوائر میں لوگوں کے بڑے بڑٖے ہجوم ہیں۔ نوجوانوں کے چہرے خوشی سے تمتما رہے ہیں ۔ وہ شام کا نیا پرچم لہرا رہے ہیں، یہ پرچم اصل میں ہئیت تحریر الشام کا پرچم ہے۔ کئی نوجوان ٹینکوں پر چڑھ کر سیلفیاں لے رہے ہیں۔ کچھ آٹومیٹک رائیفلوں کے ساتھ پوز بنا کر تصویریں بنوا رہے ہیں۔
ایسے ہی مناظر شام کے دوسرے شہروں اور قصبوں میں بھی نظر آتے ہیں۔بیرون ملک جانے والے لوٹ رہے ہیں۔ ان میں 20 سالہ عماد السوا بھی شامل ہے جو ایک ہفتہ قبل عراق سے واپس آیا ہے۔ وہ بہت سے نوجوانوں کی طرح فوج میں بھرتی ہونے یا جیل جانے سے بچنے کے لیے فرار ہو گیا تھا۔
وطن جیسا کوئی ملک نہیں
عماد کا کہنا ہے کہ اس نے عراق میں بہت مشکل وقت گزارا ہے۔ وہاں بہت غربت ہے۔ جینے کے لیے سخت محنت مزوردی کرنی پڑتی ہے۔مجھے یوں لگتا تھا کہ جیسے میرے جسم میں روح باقی نہیں رہی۔ اب میں واپس آ گیا ہوں تو میری روح بھی لوٹ آئی ہے۔
حیدر مرڈوک، وائس آف امیریکہ