گزشتہ ماہ سیاہ فام امریکی شہری جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد جہاں نسل پرستی کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے وہیں دنیا کے مختلف ملکوں کے مصور اپنے فن کے ذریعے اُنہیں خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔
اپنے جذبات کے اظہار کے لیے دنیا کے کئی ممالک کے فن کاروں نے جارج فلائیڈ کی پینٹنگز بنائی ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق جرمنی میں دیوار برلن پر جارج فلائیڈ کا دیوہیکل پورٹریٹ نصب کیا گیا ہے جس پر 'میں سانس نہیں لے سکتا' کے الفاظ درج ہیں۔
یہ وہ الفاظ ہیں جو جارج نے اس وقت ادا کیے تھے جب منی ایپلس کے ایک پولیس اہلکار نے اپنے گھٹنے سے جارج کی گردن پر دباؤ ڈال رکھا تھا۔
پاکستان کا ٹرک آرٹ دنیا بھر میں مشہور ہے۔ یہاں ٹرکوں پر دیدہ زیب پینٹنگ اور نقش نگاری کی جاتی ہے۔ عام طور پر مشہور شخصیات یا قومی ہیروز کی پینٹگز سے ان ٹرکوں کو سجایا جاتا ہے۔
کراچی میں مقیم 40 سالہ فن کار حیدر علی بھی ٹرک آرٹ سے وابستہ ہیں۔ انہیں شروع ہی سے مصوری کا شوق ہے۔ انہوں نے اپنے گھر کی دیوار پر جارج فلائیڈ کی پینٹنگ بنائی ہے۔
حیدر علی کا کہنا ہے کہ وہ اپنے فن کے ذریعے جارج فلائیڈ کو خراج تحسین پیش کرنا چاہتے تھے۔ مذکورہ پینٹنگ میں جارج فلائیڈ کے گلے میں پھولوں کا ہار ہے۔
شام کے ایک فن کار عزیز اسمار نے بھی اپنے گھر کی دیوار پر جارج فلائیڈ کی پینٹنگ بنائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح وہ یکجہتی کا پیغام عام کرنا چاہتے ہیں۔
عزیز کہتے ہیں کہ نسلی تعصب کے بجائے ہمیں مساوات اور برابری کا پیغام عام کرنا چاہیے۔ اپنے فن کے ذریعے وہ اسے پیغام کو عام کر رہے ہیں۔
عزیز نے شام کے شہر ادلب میں بمباری سے تباہ حال دیوار پر جارج فلائیڈ کی پینٹنگ بنائی ہے۔
عزیز کا کہنا ہے کہ جارج فلائیڈ کی ہلاکت نے اُن معصوم بچوں کی یاد تازہ کرتی ہے جو مبینہ کیمیکل حملوں میں دمشق اور خان شیخون میں ہلاک ہوئے۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں بھی مصوروں نے بم دھماکے سے تباہ ہونے والی دیوار پر جارج فلائیڈ کی پینٹنگ بنائی ہے۔
مصور مہر آقا سلطانی نے 'رائٹرز' کو بتایا کہ جارج فلائیڈ اب ایک عالمی شخصیت بن کر سامنے آئے ہیں۔ اُنہیں صرف اس وجہ سے ہلاک کیا گیا کیوں کہ وہ سیاہ فام تھے۔