برما نے 20 برس کے بعد سات نومبر کو ملک میں کثیر الجماعتی عام انتخابات کروانے کا اعلان کیا ہے ۔
جمعہ کے روز سرکاری میڈیا پر نشر ہونے والے ایک مختصر اعلان میں سیاسی جماعتوں کو اپنے امیدواروں کی فہرستیں 16 سے 30 اگست کے درمیان انتخابی کمیشن کو جمع کروانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
ناقدین اور انسانی حقوق کی تنظیمیں الزام لگا رہی ہیں کہ یہ انتخابات محض دکھاوے کے لیے کرائے جا رہے ہیں تاکہ بظاہر جمہوریت کی آڑ میں فوجی حکمرانی کو مضبوط کیا جا سکے۔
حکمراں فوجی ٹولے نے انتخابات سے قبل کئی ایسے قوانین کا اعلان کیا ہے جن پر اس کو تنقید کا سامنا ہے۔ ان قوانین کے ذریعے نظر بند حزب مخالف کے رہنماآن سان سوچی اور دو ہزار سے زائد سیاسی قیدیوں پر انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ ساتھ ہی انتخابی مہم کے دوران ایسے بیانات اور جلسوں پر بھی پابندی لگائی گئی ہے جن سے ”ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہو“۔
سوچی کی سیاسی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی انتخابات کا بائیکاٹ کر رہی ہے جب کہ رواں برس مئی میں اندارج سے انکار کرنے پر اس جماعت پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے 1990ء کے انتخابات میں واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی لیکن فوجی ٹولے نے نتائج قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔