ارشد شریف قتل کیس: کیا پاکستان میں ملزمان کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے؟

کینیا میں قتل ہونے والے پاکستانی صحافی ارشد شریف کیس میں سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کی سماعت پانچ جنوری کو ہو گی۔ تاہم پاکستان کے قانونی حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ بیرونِ ملک ہونے والے اس جرم کے ملزمان کے خلاف پاکستان میں کارروائی ہو سکے گی یا نہیں؟

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما عمران فاروق کا قتل کیس عالمی سطح پر ایک بڑی مثال موجود ہے جس میں جرم کسی اور مقام پر ہوا لیکن اس کا ٹرائل کسی اور ملک میں ہوا ہے۔

خیال رہے کہ عمران فاروق کو ستمبر 2010 میں لندن میں اُن کی رہائش گاہ کے باہر خنجر کے وار کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔ ان کے قتل کے الزام میں پاکستان سے کچھ ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا۔

ارشد شریف قتل کیس کے حوالے سے بہت سے سوالات کے جواب ابھی حل طلب ہیں جن کے لیے حکومت نے خصوصی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی ہے۔

ٹیم میں پولیس، وفاقی تفتیشی ادارے (ایف آئی اے)، انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور ملٹری انٹیلی جنس کے افسران شامل ہیں۔

اس ٹیم نے اب تک 60 سے زائد افراد کے انٹرویوز کرلیے ہیں اور اس بارے میں پیش رفت رپورٹ جمعرات کو سپریم کورٹ میں پیش کی جائے گی۔

یہ ٹیم آئندہ چند روز میں دبئی اور اس کے بعد رواں ماہ کے وسط تک کینیا کا دورہ کرے گی۔

اس خصوصی تحقیقاتی ٹیم سے منسلک ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس کیس میں ان کا مینڈیٹ اس کیس سے منسلک تمام لوگوں کو سامنے لانا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ سامنے آنے والی معلومات سے متعلق مستند ثبوت بھی جمع کرنے ہیں۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ بیرون ملک جرم ہونے کی وجہ سے یہ خاصا مشکل ہے کیوں کہ بیرون ملک کوئی بھی ثبوت اور بیانات کینیا کے حکام کی مرضی سے لیے جائیں گے۔

ارشد شریف کے اہلِ خانہ، بچوں، دفتر کے ساتھیوں اور دوستوں کے انٹرویوز بھی کیے جا چکےہیں ،جس کے بعد امکان ہے کہ آئندہ چند روز میں اس کیس سے منسلک مختلف سرکاری افسران کے انٹرویوز بھی کیے جائیں گے۔

Your browser doesn’t support HTML5

ارشد شریف کی کینیا میں ہلاکت کیسے ہوئی؟

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بارے میں خیبر پختونخوا کے وزیرِاعلیٰ ، پشاور تک ساتھ جانے والے مراد سعید اور دیگر حکام کے انٹرویوز بھی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

مشترکہ ٹیم کے دبئی کے دورے کے دوران اے آر وائی نیوز کے مالک سلمان اقبال، مرزا طارق وصی اور دیگر افراد کے بیانات بھی ریکارڈ کیے جائیں گے۔

کیا بیرون ملک جرم پر پاکستان میں کارروائی ہوسکتی ہے؟

اس بارے میں ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر خواجہ امتیاز نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر جرم مکمل طور پر وہیں ہوا ہوتو اس کا ٹرائل بھی وہیں ہوگا۔

اُن کے بقول بیرونِ ملک کوئی دشمنی یا اختلاف ہوا اور اس کے بعد اسی بنیاد پر وہاں قتل ہوجائے تو اس کا مکمل ٹرائل وہیں پر ہوگا، لیکن اگر یہ ثابت ہوجائے کہ اس قتل کی سازش پاکستان میں ہوئی ہے تو اس میں کارروائی کی جاسکتی ہے۔

خواجہ امتیاز نے کہا کہ عمران فاروق قتل کیس میں سازش پاکستان میں ہوئی، یہاں سے ملزمان وہاں گئے اور قتل کے بعد ملزمان پاکستان پہنچے۔

اُن کے بقول برطانیہ اس معاملے میں ایک ملزم کی تحویل چاہتا تھا، لیکن پاکستان چاہتا تھا کہ اس سازش میں ملوث تینوں ملزموں کو برطانیہ اپنی تحویل میں لے۔

اُن کے بقول برطانیہ چاہتا تھا کہ قاتل کو برطانیہ منتقل کیا جائے۔ اسی اختلاف کی بنیاد پر انہوں نے اپنے تمام تر ثبوت حکومتِ پاکستان کو فراہم کیے اور اس کے بعد اس کیس میں باقاعدہ پاکستان میں مقدمہ درج ہوا اور اس کا ٹرائل ہوا جس میں ملزمان کو سزا دی گئی۔

خواجہ امتیاز کا کہنا تھا کہ ارشد شریف قتل کیس میں بھی ممکن ہے کہ اگر اس قتل کی سازش پاکستان میں ہوئی ہے تو پھر اس میں باقاعدہ ایف آئی آر کے اندراج کے بعد اس میں کارروائی ہوسکتی ہے۔

اُن کے بقول اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کے پاس وہ تمام تر ثبوت موجود ہوں جن میں کسی ملزم کا ٹریول ریکارڈ، بینک ٹرانزیکشن، موبائل فون ریکارڈ، ای میل ریکارڈ یا پھر ایسے کوئی واضح ثبوت موجود ہوں جن میں سازش پاکستان میں ہونا ثابت ہو تو اس پر کارروائی کی جاسکتی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

ارشد شریف کیس: کینیا کے پولیس اہلکاروں کو کیوں نامزد نہیں کیا گیا؟ سپریم کورٹ کا سوال


کیا ملزمان کو پاکستان لایا جاسکتا ہے؟

خواجہ امتیاز کا کہنا تھا کہ پاکستان کے 30، 35 ملکوں کے ساتھ تحویلِ ملزمان کے معاہدے ہیں۔ عمران فاروق کیس میں پاکستان کی سری لنکا یا برطانیہ کے ساتھ ایسی ٹریٹی موجود نہ تھی لیکن اس بارے میں شواہد اتنے مضبوط تھے کہ دونوں ممالک نے تعاون کیا۔

اُن کے بقول ٹریٹی نہ بھی ہو تو بھی اکثر ممالک اقوامِ متحدہ کے قوانین کے مطابق ملزمان اور شواہد کا تبادلہ کرتے ہیں۔

اس کیس میں شامل دو پاکستانیوں کو وطن واپس لانے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وہ پاکستانی شہری ہیں لیکن بغیر مستند ثبوتوں کے انہیں پاکستان نہیں لایا جاسکتا۔

خواجہ امتیاز کہتے ہیں کہ اس بارے میں ایسے ثبوت درکار ہیں جن کی مدد سے ان افراد کو مجرم ثابت کیا جائے جس کے بعد کینیا کے حکام سے تحویل حاصل کرنے کے لیے بات کی جاسکتی ہے۔ اس میں کینیا کےحکام کا فیصلہ آخری فیصلہ ہوگا۔ اگر ان افراد پر ثابت ہو کہ انہوں نے وہاں کوئی جرم کیا ہے تو وہاں کی عدالتیں موجود ہیں اور ان کا ٹرائل وہیں پر ہو گا۔

خواجہ امتیاز کا کہنا تھا کہ پاکستان کسی غیرملکی کی تحویل بھی کلیم کرسکتا ہے، برطانیہ میں بہت سے افراد ایسے ہیں جو برطانوی شہری ہیں لیکن وہ پاکستان میں مطلوب ہیں۔