پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کابل میں افغانستان کے صدر اشرف غنی سے ملاقات کی ہے۔ ملاقات کے دوران افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندہ خصوصی محمد صادق اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی موجود تھے۔
افغانستان کے صدر کے دفتر کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ جنرل باجوہ اور صدر غنی نے افغان امن عمل پر مشاورت کی۔
دونوں رہنماؤں نے اپنی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہونے سے روکنے کے لیے طریقہ کار بھی تبادلہ خیال کیا۔
پاکستان کے آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان، خود مختار اور جمہوری افغانستان کے لیے ہر ممکن تعاون کرے گا۔
افغانستان کی اعلٰی کونسل برائے قومی مفاہمت کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے بھی پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی۔
اپنی ٹوئٹ میں عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ ملاقات کے دوران دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ افغانستان میں قیام امن خطے کے بہترین مفاد میں ہے۔
ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ امن معاہدے پر عمل درآمد اور بین الافغان مذاکرات کے جلد آغاز سے ہی افغانستان میں قیام امن کے اس سنہری موقع کے فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
اتوار کو افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے بھی پاکستان کا دورہ کیا تھا اور افغان امن عمل کو آگے بڑھانے اور بین الافغان مذاکرات شروع کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔
زلمے خلیل زاد نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید سے بھی ملاقات کی تھی۔
بعدازاں خلیل زاد قطر گئے تھے جہاں اُنہوں نے طالبان رہنماؤں سے ملاقات میں افغان عمل پر تبادلہ خیال کیا تھا۔
پاکستان کے کسی بھی اعلٰی وفد کا افغان صدر کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد یہ پہلا دورہ ہے۔
گزشتہ چند برسوں سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بھی سرد مہری پائی جاتی ہے۔ پاکستان کا یہ الزام رہا ہے کہ اسے مطلوب دہشت گرد افغانستان میں روپوش ہیں اور وقتاً فوقتاً سرحد عبور کر کے پاکستانی علاقوں میں کارروائیاں کرتے ہیں۔
افغانستان کو پاکستان سے یہ گلہ رہا ہے کہ وہ افغانستان میں پرتشدد کارروائیوں کی سرپرستی کرتا ہے۔
البتہ دونوں ملک ایک دوسرے پر لگائے جانے والے الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان 29 فروری 2020 کو طے پانے والے معاہدے میں طے پایا تھا کہ طالبان اور افغان حکومت ایک دوسرے کے قیدی رہا کریں گے جب کہ فوری طور پر بین الافغان مذاکرات شروع کرنے پر بھی اتفاق ہوا تھا۔
البتہ قیدیوں کے تبادلے کے معاملے پر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان اختلافات کے باعث بین الافغان مذاکرات تاحال شروع نہیں ہو سکے۔
اس دوران افغانستان کی سیاسی قیادت کے درمیان شراکت اقتدار کے معاملے پر اختلاف رائے سے بھی اس معاملے میں تاخیر ہوئی تھی۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بارہا یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ وہ جلد از جلد افغانستان سے اپنی فوج نکالنا چاہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ زلمے خلیل زاد امن معاہدے پر عمل درآمد کے لیے سرگرم ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کو اہمیت دیتا ہے۔ امریکہ کا یہ موقف رہا ہے کہ پاکستان طالبان دھڑوں پر اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کر کے اُنہیں تشدد ختم کرنے پر قائل کر سکتا ہے۔
تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زئی کہتے ہیں کہ یہ جنرل باجوہ کا دورہ افغانسان نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اُن کے بقول حالیہ دنوں میں زلمے خلیل زاد کی پاکستان آمد کے بعد آرمی چیف کے کابل جانے کا فیصلہ ہوا۔
رحیم اللہ یوسف زئی کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان، امریکہ اور افغانستان کرونا سے بھی متاثرہ ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ افغان امن عمل کو بھی مکمل کرنا چاہتے ہیں۔
رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ کرونا کی وجہ سے پاکستان کی اقتصادی حالت بہتر نہیں ہے۔ لہذٰا پاکستان بھی افغان تنازع کے پرامن حل کے لیے کوشاں ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ امن معاہدے میں حائل رکاوٹیں دُور ہوں اسی لیے جنرل باجوہ کابل گئے ہیں۔
تجزیہ کار اور سابق سفارت کار ایاز وزیر کہتے ہیں کہ آرمی چیف جنرل باجوہ کا دورہ اس لیے بھی اہم ہے کہ افغان امن عمل کے دوران قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر رکاوٹیں تھیں۔
اُن کے بقول پاکستان اس عمل میں سہولت کار کا کردار ادا کررہا ہے لہذا ان کا کابل جانا بہت اہمیت کا حامل ہے۔
ایاز وزیر کہتے ہیں کہ افغانستان میں سیاسی عمل مکمل ہو گیا ہے اور اب طالبان کے ساتھ بات چیت کرنا افغان حکومت کے لیے بھی آسان ہے۔
'دورے کا مقصد رابطوں کو مستحکم کرنا تھا'
وائس آف امریکہ کے قمر عباس جعفری سے گفتگو کرتے ہوئے ممتاز دفاعی اور سیاسی تجزیہ کار جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کا کہنا تھا کہ بنیادی طور پر اس دورے کا مقصد رابطوں کو مستحکم کرنا تھا۔ پاکستانی قائدین کے لئے بین الافغان بات چیت کے سلسلے میں افغان حکومت کے نظریات جاننا ضروری تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بات چیت میں دو ہی مسائل اہم تھے۔ تشدد میں دونوں جانب سے کمی اور مذاکرات کے لئے ان شرائط کا پورا کیا جانا جو پہلے ہی طے ہو چکی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کم از کم دو اور ایسے مسائل بھی تھے جن پر بات ہونی چاہئیے تھی اور یقیناً ہوئی ہوگی۔ ان میں افغان پناہ گزینوں کی واپسی اور سرحدی انتظامات شامل ہیں، کیونکہ کھلی سرحدیں دونوں ملکوں کے لئے مسائل پیدا کرتی ہیں۔
افغان صحافی اور ممتاز سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر حسین یاسا نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ دورہ اس لحاظ سے اہم تھا کہ اس وقت امن عمل میں کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی ہے، جس کی وجہ طالبان کا یہ مطالبہ ہے کہ امریکہ کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے مطابق ان کے تمام قیدی چھوڑے جائیں جو کہ ابھی تک نہیں چھوڑے گئے ہیں اور اس کے بغیر طالبان بات چیت کے لئے تیار نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی وفد نے اسی حوالے سے پیش رفت کے لئے بات کی ہو گی۔ اس کے علاوہ ایجنڈے میں افغان پناہ گزینوں کی با عزت واپسی کے لئے طریقہ کار کے تعین اور کرونا وائرس سے نمٹنے کے کام میں افغانستان کے ئے پاکستان کی مدد کی پیشکش کے موضوعات بھی شامل تھے۔
اس دورے کے نتائج کیا نکلتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ لیکن زیادہ تر لوگوں کو خدشہ ہے کہ امن عمل میں مثبت پیش رفت نہ ہوئی اور امریکی افواج وہاں سے نکل آئیں تو کہیں وہی صورت حال نہ بن جائے جو ماضی کے سوویت یونین کے نکلنے کے بعد بنی تھی۔ جس کے بعد 9/11 جیسے واقعات ہوئے تھے۔