پناہ گزینوں کے مسائل میں اضافہ

پناہ گزینوں کے مسائل میں اضافہ

شام میں سیاسی اصلاحات کی جدوجہد کرنے والوں کو ریاست کی جانب سے شدید رد عمل کا سامنا ہے۔تاہم وہاں عوام کے بعض حلقےصدر بشار الاسد کی حمایت میں سڑکوں پر بھی نکل رہے ہیں۔ شام کی صورت حال سے متاثر ہونے والوں کی ایک بڑی تعداد اپنی جان بچانے کے لیے پڑوسی ملکوں کا رخ بھی کررہی ہےاور کئی ہزار افراد اب ترکی کے پناہ گزین کیمپوں میں رہ رہے ہیں ۔

ترکی میں شام کی سرحد کے قریب واقع یایلداگی نامی پناہ گزینوں کے لیے ایک کیمپ، جہاں شام سے آنے والے تقریبا 3500 سے زیادہ پناہ گزین رہائش پزید ہیں۔ شام میں جمہوریت پسندوں کے خلاف حکومت کی کارروائیوں اور تشدد کی وجہ سے اس کیمپ میں روزانہ پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اپنا گھر بار چھوڑ کر آنے والے یہ لوگ صرف پناہ کے خواہش مند ہیں۔

پناہ حاصل کرنے کے بعد بعض افراد واپس اپنے گھروں کو لوٹنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ ترکی میں پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی کی نمائندہ کیرل بیچلر کہتی ہیں کہ پناہ گزین بہت خوفزدہ ہیں اور انہیں دوبارہ اعتماد حاصل کرنے میں وقت لگ سکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہم نے سنا ہے کہ کچھ لوگ واپس اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ان کا کیا انجام ہوا یہ کوئی نہیں جانتا۔ جب تک اس قسم کے مسئلے حل نہیں کیے جاتے تو لوگوں کے لیے بڑی تعداد میں اپنے ملک واپس جانا مشکل ہو گا۔

تیونس میں واقع شوشا کیمپ میں طوفان کے آثار ہیں۔ لیبیا میں جنگ شروع ہونے سے اب تک کئی ہزار پناہ گزین اس کیمپ کا رخ کر چکے ہیں جن میں سے بیشتر لیبیا میں کام کرنے والے افریقی تارکین وطن ہیں۔

گزشتہ چند ہفتوں کے دوران کیمپ میں مختلف افریقی ملکوں سے تعلق رکھنے والوں میں کشیدگی کا اضافہ ہوا ہے۔ لڑائی میں کیمپ کے بعض حصوں میں آگ بھی لگ گئی جس میں کئی پناہ گزین مارے گئے۔

اس کیمپ میں تقریبا ایک ہزار بچے بھی موجود ہیں۔ آتش زدگی سے ان کا وہ سکول بھی تباہ ہو گیا، جو اقوام متحدہ نے قائم کیا تھا۔

لیکن تشدد کے ڈر سے یہ لوگ اپنے گھروں کو نہیں لوٹ سکتے۔ چاڈ، سوڈان، صومالیہ، ایری ٹیریا اور عراق جیسے ملکوں سے آنے والے ان پناہ گزینوں کے پاس یہاں رہنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔

http://www.youtube.com/embed/SRil3z3yNmc

اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 70 لاکھ ایسے پناہ گزین ہیں جن کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔

لیبیا سے جان بچا کر فرار ہونے والے ہزاروں لو گوں کےلیے یورپ میں ایک نئی زندگی کے آغاز کا خواب 1500 ڈالر میں میسر ہے۔ اس قیمت میں پناہ گزین سمندر پار کرنے والی کشتیوں پر اپنے لیے جگہ خریدسکتے ہیں۔ مستقبل کے خواب اپنی آنکھوں میں لیے بہت سے افراد کئی پرانی اور خطرناک کشتیوں کے ذریعے اٹلی کے ایک جزیرے لیپ پیدوسا پہنچے۔

ان میں سے ایک کا نام معروف ہے جو لیبیا کے دارالحکومت طرابلس میں کام کیا کرتے تھے۔

بنگلہ دیشی پناہ گزین معروف کہتے ہیں کہ حکومت اور باغیوں کے درمیان ہر وقت لڑائی چھڑی رہتی ہے۔ لوگ مارے جا رہے تھے۔ اسی لیے میں اٹلی آگیا۔ کشتی کے سفر میں پانچ دن لگےاور ہم خوش قسمت تھے کہ ہم بچ گئے۔ ہماری کشتی یہاں پتھریلے ساحل پر پاش پاش ہو گئی تھی۔

اُس رات معرو ف کے تین ساتھی مسافر اس حادثے میں مارے گئے تھے۔

گزشتہ چند ماہ کے دوران کئی ہزار پناہ گزینوں ایسے حادثوں کی نذر ہو چکے ہیں ۔ اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق دنیا بھر میں چار کروڑ 30 لاکھ افراد جنگ یا تشدد کی وجہ سے بے گھر ہیں۔ اس ادارے کے مطابق تشدد اور جنگ کی روک تھام کے ذریعے ہی اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔