لیبیا میں معمر قذافی کی مخالفت کا آغاز ملک کے مشرقی علاقے سے ہوا جہاں ہمیشہ سے حکومت کی مخالفت کی جاتی رہی ہے ۔ اس کے بعد سے، عوامی تحریک کے لیڈروں نے بغاوت کی وجوہات پر توجہ دینے کی کوشش کی ہے ۔
نیشنل ٹرانزیشنل کونسل جو اب لیبیا کے مغرب میں طرابلس میں قائم ہے، خود مختار ملیشیاؤں کو کنٹرول کرنے اور ایسے ملک کی تعمیرِ نو کی کوشش کر رہی ہے جس میں نہ صرف مہینوں تک خانہ جنگی ہوتی رہی ہے بلکہ جو کئی عشروں تک بد نظمی کا شکار رہا ہے ۔ کونسل کے سامنے تازہ ترین چیلنج اس علاقے کی طرف سے آیا ہے جہاں اس کی تشکیل ہوئی تھی ۔
اس مہینے کے شروع میں بریگا کے علاقے کے لیڈروں نے اعلان کیا کہ وہ ایک خود مختار وفاقی علاقہ تشکیل دینا چاہتے ہیں۔ نیشنل ٹرانزیشنل کونسل کے عہدے داروں نے اس اعلان کی سخت مذمت کی اور اسے ملک کے ٹکڑے کرنے کی کوشش قرار دیا۔
کارنیگی مڈل ایسٹ سینٹر کے ڈائریکٹر پاؤل سالیم کہتے ہیں کہ بریگا کا اعلان اہم ہے، اگرچہ یہ غیر متوقع نہیں۔’’مشرقی صوبے، خاص طور سے بن غازی اور مشرقی علاقوں میں یہ احساس عام ہے کہ انہیں کبھی مکمل نمائندگی نہیں دی گئی ، اور قذافی کے دور میں تمام فائدے طرابلس اور مغربی علاقے کو ملتے رہے ہیں۔ اور ا ب انہیں اندیشہ ہے کہ ٹرانزیشنل کونسل اور نئی حکومت بھی طرابلس میں قائم ہے، اور طرابلس ہی کا رول سب سے اہم ہے۔‘‘
مغربی لیبیا کی طرف یہ جھکاؤ اس وقت اور زیادہ نمایاں ہو جائے گا جب جون میں اسمبلی کے انتخابات ہوں گے ، اور طرابلس کے گھنی آبادی والے علاقے کو اس ادارے میں زیادہ نمائندگی ملے گی جو ملک کا نیا آئین تحریر کرے گا۔
بعض مبصرین کی نظر میں مشرقی علاقے کا وفاقیت کا اعلان اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش ہے کہ نئے آئین میں، تیل کی دولت سے مالا مال مشرقی علاقے کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ اس نکتے پر زور دیتےہوئے بریگا کے لیڈروں نے انکار کیا ہے کہ وہ لیبیا سے علیحدہ ہونا چاہتےہیں ۔
لیکن کیوں کہ نیشنل ٹرانزیشنل کونسل کمزور ہے اور اب تک ملک کے بیشتر حصے پر اپنی گرفت مضبوط نہیں کر سکی ہے اور نہ ہی بہت سے علاقائی مسلح گروہوں کو ایک متحدہ کمان کے تحت لا سکی ہے ، اس لیے صورتِ حال پیچیدہ ہو گئی ہے ۔
قاہرہ کے اہرام سینٹر فار اسٹریٹجک اسٹڈیز کے سیاسی تجزیہ کار زیاد اکل کے مطابق، نیشنل ٹرانزیشنل کونسل نے نیک نیتی سے یہ کوشش کی ہے کہ ملیشیا کے ارکان کو ملک کی سیکورٹی فورسز میں ضم کر لیا جائے ۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ اب اسے چاہیئے کہ جو لوگ قومی مقصد کے لیے متحد ہونے سے انکار کریں، انہیں نتائج کے بارے میں خبر دار کرے۔
’’لیبیا میں مسلح گروہوں کا خاتمہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ایسا قانون موجود ہو جس کے تحت ان لوگوں کو سزا دی جا سکے جو قانون کی بالا دستی کو تسلیم کرنے سے انکار کریں۔‘‘
نہ تو اکل اور نہ ہی سالیم کے خیال میں موجودہ صورتِ حال ایسی ہے جس سے کسی نئے تصادم یا خانہ جنگی دوبارہ شروع ہونے کا خطرہ ہے ۔ بلکہ اکل کی نظر میں ، آنے والے انتخابات اور نئے آئین سے گذشتہ عشروں کی شکایات کو دور کرنے اور ملک کو پہلے سے زیادہ مضبوط بنانے کا موقع ملے گا۔’’لیبیا کے لوگوں کو ایسی مملکت کی ضرورت ہے جو موجودہ دور کے تقاضوں کو پورا کرتی ہو، اور جو اپنے تمام شہریوں کو اشیاء اور خدمات فراہم کر سکے۔ یہ مقصد اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک ا یک واضح ڈھانچہ موجود نہ ہو۔‘‘
ایک ایسے ملک کے لیے جس پر 40 برسوں تک ایسے فردِ واحد نے حکومت کی جو عقل و فہم سے عاری تھا ، بہت سے لوگوں کے خیال میں کوئی بھی ڈھانچہ پہلے سے بہتر ہو گا۔
شاید سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ملک کو آمریت سے ایسے نظام کی طرف کیسے لایا جائے جس میں مختلف خیالات اور نظریات کو قبول کرنے کی گنجائش ہو ، جس میں قبائلی، علاقائی اور مذہبی آوازیں ایک دوسرے کے خلاف نہیں، بلکہ مِل جُل کر کام کریں۔ اکل کہتے ہیں کہ اس کام میں وقت لگے گا۔’’ہم در اصل معاشرتی اور ثقافتی اصلاحات کی بات کر رہے ہیں جن پر عمل در آمد میں برسوں لگتے ہیں ۔ عرب دنیا میں آنے والے انقلاب سیاسی نوعیت کے تھے جن کا مقصد سیاسی اصلاحات تھا، اور ان کی اصل ترجیح یہی ہے ۔‘‘
لیکن وہ کہتے ہیں کہ مختلف آوازوں پر مشتمل بات چیت کے لیے سیاسی بنیاد کی فراہمی سے، انقلاب کے اصل مقصد کا حصول اب بھی ممکن ہے ۔