پشاور میں فوج کے زیرانتظام اسکول پر دہشت گردوں کے بدترین حملے میں طالب علموں سمیت لگ بھگ 150 افراد کی ہلاکت کے واقعے کو ایک سال بیت گیا ہے۔
اس ایک سال کی ملکی تاریخ میں خاص اہمیت رہی، اسکول پر حملے کے بعد دہشت گردوں کے خلاف قومی سطح پر اتفاق رائے دیکھا گیا اور ملک کے طول عرض میں عسکریت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائی کا آغاز کیا گیا۔
دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کی کامیابی کا اندازہ کسی حد تک اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں حالیہ مہینوں میں شدت پسندوں کی کارروائیوں میں نمایاں کمی آئی۔
Your browser doesn’t support HTML5
لیکن حکام اعتراف کرتے ہیں کہ دہشت گردی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے انتھک کوششوں کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے وزیر مملکت برائے مذہبی اُمور امین الحسنات کہتے ہیں کہ بلا شبہ پشاور اسکول پر دہشت گردوں کا حملہ پوری قوم کی سوچ بدلنے کا سبب بنا۔
’’قوموں کی زندگی میں فیصلہ کن موڑ ایسے ہی آتے ہیں کہ ایک واقعہ جنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ 16 دسمبر کے واقعے نے ہماری قوم کی نفسیات اور مزاج کو بدلا۔‘‘
دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی پر اتفاق اپنی جگہ، لیکن پشاور اسکول پر حملے میں بچوں کو کھونے والوں کا دکھ اب بھی ہرا ہے۔
بدترین دہشت گردی کا نشانہ بننے والے بچوں کے والدین نے اسلام آباد میں ایک ریلی کے دوران مطالبہ کیا کہ ارباب اختیار بچوں کی قربانی کو کسی طور نا بھولیں۔
پشاور اسکول پر حملے میں براہ راست ملوث دہشت گرد اُسی روز مارے گئے تھے، لیکن اس حملے کی منصوبہ بندی اور معاونت میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی جاری ہے جن میں سے فوج کے مطابق بیشتر دہشت گرد پکڑے جا چکے ہیں اور اُن میں سے چار کو فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کے بعد سزائے موت بھی دی جا چکی ہے۔
اراکین پارلیمان کا بھی ماننا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے یکسوئی کے ساتھ کارروائیاں جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں مختلف حلقوں بشمول سیاسی قیادت کا بھی ماننا ہے کہ عسکری کارروائیوں کے ساتھ ساتھ تعلیم اور امن کے حصول کی طاقت سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہے۔