|
اسرائیل کے وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے کہا ہے کہ اب اسرائیلی فوج اپنی توجہ غزہ سے لبنان کی سرحد کی طرف منتقل کر رہی ہے۔
منگل کو شمالی اسرائیل کے دورے میں گیلنٹ نے کہا کہ اسرائیل نے غزہ میں اپنی کارروائیوں میں کمی کر دی ہے، جہاں وہ تقریباً ایک سال سے حماس کے خلاف لڑ رہا ہے۔
گیلنٹ نے فوجیوں کو بتایا کہ اب ہماری اصل توجہ جنوب سے شمال کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔ ہم یہ عمل بتدریج کریں گے، کیونکہ ابھی جنوب میں ہمارے بہت سے مشن باقی ہیں۔
SEE ALSO: حزب اللہ کے اسرائیل پر ڈرون حملے، آواز سے تیزرفتار اسرائیلی طیاروں کے تہلکہ خیز شور سے بیروت لرز اٹھالبنان کا عسکری گروپ حزب اللہ حماس کی حمایت میں اسرائیل پر راکٹ حملے کرتا رہتا ہے جس کا اسرائیلی فوج بمباری کی شکل میں جواب بھی دیتی ہے۔ لیکن اب اسرائیل نے اپنی توجہ لبنانی سرحد کی جانب حزب اللہ کے عسکریت پسندوں پر مرکوز کر دی ہے۔
حزب اللہ نے حماس کے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حملے کے فوری بعد اسرائیل پر حملے شروع کر دیے تھے۔جس کے بعد سے اسرائیل اور حزب اللہ کے عسکریت پسندوں کے درمیان تقریباً روز ہی جھڑپیں ہوتی ہیں، جس سے خطے میں جنگ کا دائرہ پھیلنے کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔
ان خدشات میں اس وقت مزید اضافہ ہوا جب حزب اللہ نے گزشتہ ماہ بیروت میں اپنے ایک اعلیٰ کمانڈر کی اسرائیلی حملے میں ہلاکت کا بدلہ لینے کا اعلان کیا تھا۔
جنگ بندی کے مطالبات
منگل کو مصر نے منگل کو غزہ میں اسرائیل اور حماس کی جنگ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر بحیرہ روم کےساحل پر واقع غزہ کی تنگ پٹی میں لڑائی کو نہ روکا گیا تو یہ تنازع ایک وسیع علاقائی جنگ کی صورت میں پھیل سکتا ہے۔
مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے العالمین میں گرمائی صدارتی محل میں امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن کے ساتھ ملاقات کے بعد ایک بیان میں کہا، "وقت آگیا ہے کہ جاری جنگ کو ختم کیا جائے، اور دانشمندی سے کام لیا جائے ، اور امن اور سفارت کاری کے لہجے کو برقرار رکھا جائے۔"
انہوں نے کہا فریقوں کو "علاقائی سطح پر پھیلنے والے تنازعے کے خطرے" سے ہوشیار رہنا چاہیے کسی وسیع جنگ کے خطرے کا "تصور کرنا مشکل" ہو گا۔
مصری رہنما نے کہا کہ غزہ میں جنگ بندی کو "فلسطینی ریاست کو بین الاقوامی طور پر وسیع طور پر تسلیم کرنے اور دو ریاستی حل کے نفاذ کا آغاز ہونا چاہیے، کیونکہ یہی خطے میں استحکام کا بنیادی ضامن ہے۔"
ساڑھے 10 ماہ کی لڑائی میں جنگ بندی کے لیے مہینوں سے تعطل کی شکار بات چیت کے دوران، امریکہ نے دو ریاستی حل کے لیے اپنی حمایت برقرار رکھی ہے جس میں اسرائیل کے شانہ بشانہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا گیا ہے، لیکن اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اسرائیل کی سلامتی کے لیے اسکی مخالفت جاری رکھی ہے۔
مصر، قطر اور امریکہ مل کر اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے لیے مذاکرات پر زور دے چکے ہیں لیکن وہ معاہدہ مکمل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
بلنکن کی اسرائیلی رہنماؤں سے ملاقات
مصر میں صدر اور وزیر خارجہ سے ملاقات سے پہلے امریکی وزیرخارجہ انٹنی بلنکن نے کہا تھاکہ اسرائیل نے غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی سے متعلق امریکی حمایت والے مجوزہ معاہدے کو قبول کر لیا ہے ۔ انہوں نے حماس پر زور دیا ہے کہ وہ بھی اس تجویز کو قبول کرے۔
امریکی وزیر خارجہ نے کہا، " وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ آج (پیر کو) بہت تعمیری ملاقات رہی۔ انہوں نے تصدیق کی کہ اسرائیل اختلافات کم کرنے والی تجویز کی حمایت کرتا ہے۔ اگلا اہم قدم یہ ہے کہ حماس بھی ہاں میں جواب دے۔"
تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ آیا اس تجویز سے متعلق عسکریت پسند گروپ حماس کی شکایات کو دور کیا گیا ہے یا نہیں۔
بلنکن نے اس اعلان سے قبل اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ ڈھائی گھنٹے کی طویل ملاقات کی تھی۔ امریکہ، مصر اور قطر اسرائیل اور حماس کے درمیان مجوزہ امن معاہدے پر مہینوں سے مل کر کام کر رہے ہیں۔
بہر حال، بلنکن نے مزید کہا کہ اگر حماس تجویز کو قبول کر لیتا ہے، تو بھی مذاکرات کار آنے والے دنوں میں "معاہدے پر عمل درآمد کے حوالے سے کسی واضح مفاہمت" پر کام کریں گے۔ انہوں نے بغیر کسی وضاحت کے کہا کہ اب بھی "پیچیدہ مسائل" باقی ہیں جن کے لیے "رہنماؤں کے سخت فیصلوں" کی ضرورت ہے۔
(اس رپورٹ کی تفیصلات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئیں ہیں)