امریکی محکمہ انصاف کے خصوصی تفتیشی افسر یا سپیشل کاؤنسل رابرٹ مولر اس ہفتے روس کی امریکی انتخابات میں مداخلت کے حوالے سے اپنی تحقیقات مکمل کرنے والے ہیں۔ اس خبر سے واشنگٹن میں اس وقت سرکاری سطح پر خاصی بے چینی پائی جاتی ہے۔ تقریبا دو سال چلنے والی ان تحقیقات میں کئى فرد جرم عائد ہوئىں اور صدر ٹرمپ کے کئى ساتھیوں اور ان کی انتخابی مہم چلانے والوں کو مجرم بھی ٹھرایا گیا۔ خدشہ ہے کہ 2016 کے امریکی انتخابات میں روس کی مداخلت کے حوالے سے مرتب کی جانے والی مولر رپورٹ کا صدر ٹرمپ کے ساتھ ساتھ ملک پر بھی بہت گہرا اثر پڑ سکتا ہے۔
وہ لوگ جو روس کی مداخلت کے حوالے سے ان تحقیقات کی زد میں ہیں ان میں قومی سلامتی کے سابقہ مشیر مائیکل فلن، صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کے سابق چئیرمین پال مینا فورٹ اور صدر ٹرمپ کے سابق ذاتی وکیل مائیکل کوہن شامل ہیں۔
لیکن صدر ٹرمپ کی جانب سے ان تحقیقات کو مسلسل عناد پر مبنی سازش کہ کر مسترد کیا جاتا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اس میں کسی قسم کی کوئى سازش نہیں تھی اور وہ اپنی انتخابی مہم میں روس سے کبھی بھی مدد لے سکتے۔
ایک بارجب سپیشل کاؤنسل رابرٹ مولر اپنی تحقیقات مکمل کر لیں گے تو وہ اسکی رپورٹ نئے اٹارنی جنرل ویلیم بار کوپیش کریں گے۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اس بات کا فیصلہ اٹارنی جنرل کریں گے کہ رپورٹ کے کونسے حصے امریکی کانگرس اور عوام کے سامنے پیش کیے جائىں۔ اس بارے میں صدر ٹرمپ کہتے ہیں کہ یہ مکمل طور پر نئے اٹارنی جنرل پر منحصر ہوگا۔ وہ ایک زبردست انسان ہیں جو اس ملک اور نظام انصاف کی عزت کرتے ہیں۔
کانگریس سے اپنی توثیق کے لیے ہونے والی سماعت میں ولیم بار کو ڈیموکریٹ رہنماؤں کی جانب سے مولر کی رپورٹ پر سخت سوالوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ جب اُن سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ مولر کی رپورٹ سامنے لانے کا وعدہ کرتے ہیں تو اُنہوں نے اپنے سابقہ بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ مولر رپورٹ کی وہ تمام معلومات منظر عام پر لائیں گے جو قواعد و ضوابط کے تحت لائی جا سکتی ہیں۔
روسی مداخلت کی تحقیقات کے نتیجے میں اب تک جتنی بھی فرد جرم عائد کی گئىں یا جتنے بھی اقبال جرم ہوئے ان کے باوجود اب بھی لوگ مولر رپورٹ سے کچھ اہم بنیادی سوالوں کے جواب چاہیں گے ۔
یونیورسٹی آف کنیکٹیکٹ کے ڈگلس سپینسر کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں دو سوال اہم ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا ٹرمپ کی صدارتی مہم اور روس کا آپس میں کوئى تعلق تھا اور دوسرا سوال یہ ہے صدر ٹرمپ کا اس سے ذاتی طور پر کوئی تعلق تھا یا نہیں؟
یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا صدر ٹرمپ نے روسی مداخلت کی تحقیقات میں کوئى رکاوٹ ڈالی ؟ اس بارے میں بروکنگز انسٹی ٹیوت کے تجزیہ کار ایلین کمارک کہتے ہیں کہ تحقیقات کا دائرہ صدر کے انتہائی نزدیک پہنچ چکا ہے اور یہ سوال ہر کسی کے ذہن پر ہے کہ کیا صدر اس سے واقعی متاثر ہونگے؟
ایک اور تجزیہ کار جون فارٹیر کا خیال ہے کہ اس رپورٹ کے امریکی صدر کے لیے قانونی اور سیاسی اثرات بہت زیادہ ہو سکتے ہیں ۔
تجزیہ کار ایک بات پر متفق ہیں کہ طویل عرصے سے چلنے والی ان تحقیقات کا کوئی حتمی نتیجہ سامنے آنے پر عوام یقیناً سکون کا سانس لیں گے ۔