|
پاکستان کے صوبہ سندھ میں ایک اور صحافی کے دن دیہاڑے قتل پر صحافتی تنظیموں کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے کی تحقیقات جاری ہیں۔ پولیس نے اس شک کا اظہار کیا ہے کہ 'آواز ٹی وی' سے تعلق رکھنے والے صحافی بچل گھنیو کو خاندانی دشمنی کی بنا پر قتل کیا گیا۔
یہ اس ضلع میں ایک سال میں تیسرے صحافی کے قتل کا واقعہ ہے۔ خیال رہے کہ گھوٹکی ان اضلاع میں شمار ہوتا ہے جہاں امن و امان کی حالت انتہائی خراب ہے اور ضلع کے کچے کے علاقے میں موجود ڈاکوؤں کی جانب سے اغوا، تشدد، پولیس پر حملوں سمیت لوٹ مار کی وارداتیں عام ہیں۔
تفصیلات کے مطابق بچل گھنیو کو گھوٹکی میں کچے کے علاقے رونتی میں قتل کیا گیا ہے۔ ان کے قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ انہیں اس سے قبل کئی دھمکیاں مل چکی تھیں اور ان کی برادری میں بھی جھگڑے چل رہے تھے۔
گھوٹکی میں جیو نیوز سے وابستہ صحافی ملک اسلم کہتے ہیں کہ بچل گھنیو پر انہی کی برادری کے بشیر گھنیو نے الزامات عائد کیے تھے۔
بشیر گھنیو نے الزام لگایا تھا کہ بچل نے حکومت سے انعام کی لالچ میں اس کا نام انتہائی مطلوب ڈاکوؤں کی فہرست میں شامل کرنے کے لیے پولیس سے ساز باز کی تھی۔ بشیر گھنیو نے اپنی ایک ویڈیو میں یہ الزام مقتول صحافی پر عائد کیا تھا اور ویڈیو ریکارڈ کرانے کے بعد اس نے خود کشی کر لی تھی۔
صوبائی حکومت نے بشیر گھنیو پر اغوا، پولیس مقابلے اور دیگر مقدمات میں مطلوب بشیر کے سر کی قیمت 50 لاکھ روپے مقرر کی تھی۔ تاہم دوسری جانب بچل گھنیو اس الزام سے انکار کرتے آئے تھے۔
ملک اسلم کے مطابق اس الزام اور اس کے نتیجے میں خودکشی کے بعد عمائدین علاقہ کا ایک جرگہ ہوا جس میں بچل گھنیو کو سلگتے کوئلوں پر چل کر اپنی بے گناہی ثابت کرنا تھی۔ لیکن جرگے کے فیصلے کے مطابق ان کی بے گناہی ثابت نہیں ہوئی تھی اور جرمانے کے طور پر صحافی کو 10 لاکھ روپے بطور جرمانہ بھی بشیر گھنیو کی فیملی کو ادا کرنا پڑا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد دونوں خاندانوں میں صلح صفائی ہو گئی لیکن منگل کی صبح بچل گھنیو کو اپنے کھیت میں جاتے وقت بشیر گھنیو کے بھائیوں نے نشانہ بنایا اور یوں وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گیا۔
قتل کے بعد صحافیوں نے ایس ایس پی گھوٹکی کے دفتر کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا اور قاتلوں کی جلد گرفتاری کا بھی مطالبہ کیا۔ پولیس کی جانب سے مقتول صحافی کے قتل کی ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے اور علاقہ پولیس کی قاتلوں کی جلد گرفتاری کی یقین دہانی پر صحافیوں نے احتجاج بھی ختم کردیا ہے۔ جب کہ صحافی کی تدفین بھی مقامی قبرستان میں کردی گئی ہے۔
وزیر اعلٰی سندھ سید مراد علی شاہ نے بچل گھنیو کے قتل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی سندھ کو قاتلوں کو فوری گرفتار کرنے کی ہدایت کی ہے۔
سندھ میں رواں سال اب تک یہ قتل ہونے والے دوسرے صحافی ہیں۔ اس سے قبل گھوٹکی ضلع میں روزنامہ 'عوامی آواز' سے منسلک صحافی نصر اللہ گڈانی کو بھی میرپور ماتھیلو میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے شدید زخمی کر دیا تھا جو کئی روز زیرِ علاج رہنے کے بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے کراچی کے اسپتال میں دم توڑ گئے تھے۔
نصر اللہ گڈانی کی والدہ پٹھانی کی جانب سے دائر مقدمے میں قتل کا الزام رکن قومی اسمبلی خالد لونڈ اور ان کے دو بچوں پر عائد کیا گیا ہے۔ کیس میں نامزد رکن قومی اسمبلی اور ان کے بیٹوں شہباز لونڈ اور نور محمد لونڈ کی درخواست ضمانت 26 اگست کو مسترد کردی گئی تھی۔ تاہم پولیس نے اب تک ان تینوں میں سے کسی کو بھی کیس میں گرفتار نہیں کیا۔
صحافتی تنظیموں کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں میں سندھ میں صحافیوں کے خلاف 184 حملے رپورٹ کیے جا چکے ہیں جن میں 12 صحافی قتل کیے جا چکے ہیں۔ ان میں نصراللہ گڈانی کے علاوہ جان محمد مہر، عزیز میمن، اجے لال وانی، غلام اصغر خوند، ذوالفقار مندرانی، اشتیاق سوڈھیرو، اور دیگر شامل ہیں۔
صحافیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹ کے مطابق مارچ 2023 سے رواں سال مارچ تک پورے ملک میں آزادئ صحافت پر حملوں کی وارداتوں (104) میں سے 33 فی صد سندھ میں ہوئیں۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آزادئ صحافت پر حملوں میں قتل، قاتلانہ حملے، اغوا کی وارداتیں، انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے دھمکیاں اور مقدمات کا اندراج شامل ہے۔ سندھ میں ایسے واقعات تیزی کے ساتھ رونما ہو رہے ہیں کیوں کہ ان واقعات میں ملزمان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی دکھائی نہیں دیتی۔
ادھر صحافیوں کی نمائندہ تنظیموں نے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ کراچی یونین آف جرنلسٹس نے گھوٹکی کے علاقے رونتی میں 'آواز ٹی وی' کے نمائندے صحافی محمد بچل گھنیو کے قتل پر انتہائی افسوس کا اظہار کیا ہے۔
کراچی یونین آف جرنلسٹ (کے یو جے) کے ایک گروپ کے صدر اعجاز احمد بچل گھنیو کے قتل پر ان کے پسماندگان کے ساتھ تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ قتل سندھ پولیس اور سندھ حکومت کی ناکامی کا ثبوت ہے۔
اپنے بیان میں صدر کا مزید کہنا تھا کہ سکھر اور گھوٹکی میں زیادہ فاصلہ نہیں، ایک سال کے دوران سکھر رینج میں تیسرا صحافی قتل ہوا ہے اگر جان محمد مہر اور نصراللہ گڈانی کے حقیقی قاتل گرفتار ہوتے تو شاید بچل گھنیو قتل نہ ہوتا، شاید سندھ پولیس مزید صحافیوں کے قتل کا انتظار کر رہی ہے۔
کے یو جے نے مطالبہ کیا ہے کہ وزیرِ اعلی سندھ، وزیر داخلہ،آئی جی سندھ خود گھوٹکی جا کر صورتِ حال کا جائزہ لیں۔ محمد بچل کے قاتلوں کو بلا تاخیر گرفتار کیا جائے۔ اس کے ساتھ نصراللہ گڈانی اور جان محمد مہر کے حقیقی قاتلوں کو گرفتار کر کے سندھ حکومت اپنے وعدے پر عمل کرے۔
ادھر ایکشن کمیٹی پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس جس میں صحافیوں کی تمام یونین تنظیمیں شامل ہیں، کا کہنا ہے کہ واقعے کے خلاف بھرپور احتجاج کیا جائے گا اور جب تک قاتل گرفتار نہیں ہوتے احتجاج جاری رکھا جائے گا۔