سائنس دان دور قدیم کے جراثیموں پر یہ تحقیق کررہے ہیں کہ اسپتالوں اور دیگر طبی مراکز میں جراثیم کش ادویات کے خلاف مزاحمت کرنے والے جراثوموں کا جنم کیسے ہوا ۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کی کڑیاں لاکھوں سال قبل کے دور سے ملتی ہیں۔
خوردبینی جراثیموں میں سے چھ اقسام کا ایک گروپ’ انٹروکوسس ‘کے نام سے موسوم ہے جسے ’سپر بگ‘ یعنی بڑے جراثومے بھی کہا جاتا ہے۔ اس گروپ سے تعلق رکھنے والے جراثیم مریض کے اندر جراثیم کش ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا کرتے ہیں اور ممکنہ طور پر ہلاکت خیز ثابت ہوتے ہیں۔
سائنس دانوں کے ایک ٹیم کو’ انٹروکوس‘گروپ کے جراثیوں پر تحقیق کے دوران یہ پتا چلا کہ دواؤں کے خلاف مزاحمت کی کڑیاں ماضی میں 45 کروڑ سال کے دور سے جا ملتی ہیں۔ یہ وہ زمانہ ہے جب کرہ ارض پر ڈینوساروں کا جنم بھی نہیں ہوا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ انہیں جانوروں کے اس فضلے پر تحقیق سے، جو وقت کے تغیرو تبدل کا نشانہ بننے سے محفوظ رہ گیا تھا، پتا چلا کہ جراثیوں کا یہ گروپ اتنا سخت جان ہے کہ وہ سورج کی گرمی اور موسم کی سختیاں برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
سائنس دانوں کو یہ جراثیم 30 ہزار سال پرانی برف کے اندر سے ملے جنہیں سائنس دانوں نے باہر نکالا اور دوبارہ زندہ کیا۔
امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی کے سائنس دان مائیکل گلمور نے، جو اس ٹیم کے سربراہ تھے، بتایا کہ جراثیموں کے گروپ ’انٹروکوسی‘ ایک طرح سے بیکٹریا کا ’کاکروچ ‘ہے۔ اسے ہلاک کرنا بہت مشکل ہے ۔ ہمارا خیال ہے کہ مشکل حالات میں ان جراثیموں کی زندہ رہنے کی خصوصیت ہی ہے جو انہیں اس زمانے کے اسپتالوں اور طبی مراکز میں زندہ رہنے کے قابل بناتی ہے۔
گلمور کی قیادت میں ماہرین کی ایک ٹیم کو 24 اقسام کے جراثیوں پر مشتمل’ انڑو کوسی ‘خاندان پر اپنی تحقیق کے دوران پتا چلا کہ ان کے اندر مختلف نوعیت کی 45 ایسی خصوصیات ہیں جو انہیں دور جدید کی جراثیم کش ادویات کے مقابلے کے قابل بناتی ہیں۔
بیکٹیریا کے جینیاتی مواد پر تحقیق سے سائنس دانوں کو معلوم ہوا کہ’ انٹروکوسی ‘گروپ کے نشان 54 کروڑ سال سے پہلے کے دور تک جاتے ہیں جب زندگی پانی سے نکل کر خشکی پر رہنے کے لیے تیار ہو رہی تھی۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس بیکٹریا نے سمندر سے ساحلوں کی جانب زندگی کی توسیع کے تقریباً 10 لاکھ سال کے بعد خشکی پر رینگنے والے جانوروں کی آنتوں میں جگہ بنا کر اپنے اندر ماحول کے خلاف مزاحمت کی صلاحیت پیدا کر لی تھی۔
مائیکل گلمور نے بتایا کہ اس تحقیق کا مقصد ایسی ادویات تیار کرنا ہے جو اپنے اندر مزاحمت پیدا کرنے والے جراثیموں کے اس گروپ کے خلاف موثر ثابت ہو سکیں۔
یہ تحقیق سائنسی جریدے’ سیل ‘میں شائع ہوئی ہے۔