ترکی میں ناکام فوجی بغاوت پر تبصرہ کرتے ہوئے، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ثابت ہو گیا ہے کہ ’’اگر عوام ساتھ ہوں تو پھر سیاسی حکومتوں اور جمہوری نظام کو بوٹوں یا بندوق سے خطرہ نہیں ہو سکتا‘‘۔
بقول اُن کے، جس طرح ترکی کے عوام نے آمرانہ سوچ کے خلاف سڑکوں پر نکل کر منتخب حکومت کو گرانے کا منصوبہ ناکام بنایا ہے ’’وہ اپنی مثال آپ ہے‘‘۔ تاہم، ان کے بقول، ’’اس واقعے کی بازگشت آئندہ کئی برسوں تک ترکی میں سنائی دیتی رہے گی‘‘۔
’وائس آف آمریکہ‘ کے پروگرام ’جہاں رنگ‘ میں پاکستان کے ممتاز دفاعی تجزیہ کار سابق ایئر مارشل شاہد لطیف، ’سنٹر فار گلوبل پالیسی‘ کے سینئر فیلو اور ’جارج واشنگٹن یونیورسٹی‘ کے انتہاپسندی سے متعلق پروگرام سے وابستہ کامران بخاری، واشنگٹن ہی میں مقیم صحافی و تجزیہ کار انور اقبال، ترکی کے سرکاری میڈیا ترک ٹیلی وژن اور ریڈیو میں اردو سروس کے سربراہ فرقان حمید، ترکی میں ہی موجود تجزیہ کار اور مصنفہ فاریبہ نوا، صحافی کالم نگار تجزیہ کار عامر ہاشم خاکوانی اور سیاسیات کے پروفیسر شاہد انور نے صدر اردگان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کے پس منظر میں مختلف پہلوؤں پر گفتگو کی۔
فرقان حمید نے بتایا کہ ملک میں صدر اردگان کی حکومت ملک پر کنٹرول برقرار رکھے ہوئے ہے اگرچہ لوگ سڑکوں پر ہیں، لیکن وہ سیاسی حکومت کی حمایت کا اظہار کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اردگان حکومت امریکہ میں موجود جلاوطن راہنما فتح اللہ گولین کو اس بغاوت کا الزام دے رہی ہے۔ فرقان حمید کے مطابق، جیسے روایتی طور پر فوجی بغاوتوں میں میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش سب سے پہلے کی جاتی ہے، انقرہ میں بھی اس ناکام فوجی بغاوت کے دوران ان کے ادارے ’ٹی آر ٹی‘ پر قبضہ کر لیا گیا اور یہیں سے پہلا اعلان کیا گیا کہ حکومت کو ختم کر دیا گیا ہے۔
فاریبہ نوا نے کہا کہ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا کہ ناکام بغاوت کا اصل ذمہ دار کون ہے۔ تاہم، کئی ایک قیاس آرائیاں اور سازشی نظریات گردش میں ہیں، جہاں صدر اردگان کے ماضی کے اتحادی اور آج کے مخالف فتح اللہ گولین کو ذمہ دار خیال کیا جا رہا ہے وہاں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ’’ہو سکتا ہے صدر اردگان نے خود یہ منصوبہ بندی کی ہو تاکہ آئینی اصلاحات کے لیے خود کو سیاسی طور پر مزید طاقتور بنا سکیں؛ اور پھر ترکی کے ایک سول آمر کی حیثیت سے پورا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے سکیں‘‘۔ تاہم، ان کا کہنا تھا کہ یہ بات زیادہ متاثر نہہیں کرتی کہ صدر اردگان نے اور ان کی پارٹی اے کی پی نے ایسا کوئی منصوبہ گھڑا ہو۔
ایئر مارشل شاہد لطیف کا کہنا تھا کہ ترکی میں بغاوت کی کوشش انفرادی یا فوج کے اندر ایک چھوٹے سے گروہ کی کارروائی معلوم ہوتی ہے جس کے پاس بڑی منصوبہ بندی نہیں تھی۔ ان کے بقول، اگر فوج کے سربراہ ایسا کوئی منصوبہ بناتے تو غالب امکان تھا کہ مارشل لا آ جاتا۔ پاکستان کے حالات سے موازنہ کرتے ہوئے شاہد لطیف نے کہا کہ ’’اس سارے قصے میں پاکستان کے لیے واضح پیغام ہے کہ اگر سیاسی حکومتیں ڈیلیور کریں تو پھر ان کو کوئی بغاوت ہٹا نہیں سکتی‘‘۔
سیاسیات کے پروفیسر شاہد انور نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ ’’سیاسی حکومت کی سب سے بڑی طاقت عوام کی اس کے ساتھ وابستگی ہے۔ سیاسی راہنما عوام کی امنگوں کے مطابق کام کریں تو پھر بوٹ یا بندوق ان کو راستے سے نہیں ہٹا سکتے‘‘۔
کالم نگار عامر ہاشم خاکوانی نے بھی پاکستان کے ساتھ ترکی کے حالات کے موازنے میں کہا کہ ’’ترک صدر نے چونکہ ڈیلیور کیا ہے، ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا ہے وہ عوام کی اکثریت کی حمایت رکھتے ہیں اور عوام ان کی سب سے بڑی طاقت بن کے ابھرے ہیں جو جدید تاریخ میں ایک بڑی مثال ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بدقسمتی سے جب سیاسی حکومتوں کو ہٹایا گیا تو وہ اس قدر عوامی حمایت سے محروم تھیں کہ لوگ مٹھایاں بانٹتے ہوئے نظر آئے۔ انہوں نے البتہ ترک صدر کو باور کرایا کہ وہ جس سوشل میڈیا کے خلاف تھے، وہی سوشل میڈیا ان کے ٹیلی فونک پیغام کو عام کرکے لوگوں کو اکٹھا کرنے کا سبب بنا۔
کامران بخاری کا کہنا تھا کہ ’’بغاوت بظاہر مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی۔ اور اس سے یہ ظاہر ہوگیا ہے کہ ترکی کی فوج منقسم ہے اور سیاسی طبقہ بھی‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ترکی کے جس ماڈل کا ذکر ہوتا تھا کہ وہ اسلامی جمہوریہ ہے، اس کو بری طرح دھچکا پہنچا ہے اور اس واقعے کے اثرات آئندہ کئی برسوں تک محسوس ہوتے رہیں گے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب اسے داعش اور اندرونی تحریکوں کا سامنا ہے‘‘۔