ایران کے رہبرِ اعلیٰ کے ایک سینئر مشیر نے عراق کی جانب سے موصل کو داعش سے آزاد کرانے کو ایران کی فتح قرار دیا ہے۔
رہبر اعلیٰ علی خامنہ اِی کے مشیر، علی اکبر ولایتی نے اخباری نامہ نگاروں کو بتایا کہ ''عراقی شہر موصل کو داعش سے آزاد کرانا عراق کے ساتھ ایران کی فتح یابی ہے''۔
ہارورڈ یونیورسٹی میں پولٹیکل سائنٹسٹ، ماجد رفیع زادے نے کہا ہے کہ عراقی افواج کی فتح ''ایران کے لیےاُس کے سنی اکثریت والے حریف، سعودی عرب کے خلاف طاقت کے علاقائی توازن میں بہتری کی موجب بنی ہے''۔
رفیع زادے نے مزید کہا کہ ''داعش کے منظرنامے پر آنے سے ایران کے لیے راستہ کھلا کہ وہ اپنی جغرافیائی، مالی اور حکمت عملی کے حامل اہداف کی اپنی سرحدوں سے دور نگرانی کرے، اور ایران کو موقع ملا کہ وہ حامیوں کے جال کو پھیلا کر خفیہ وار کر سکے''۔
حالیہ ہفتوں کے دوران، ایران کے طویل مدت کےحریف سعودی عرب کے درمیان تنائو بڑھا ہے، جب سے سعودیہ اور اُس کے خلیج فارس کے پارٹنروں نے قطر کے ساتھ تعلقات منقطع کیے ہیں، اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ قطر کے ایران کے ساتھ اور ایران کے دہشت گردی کے ساتھ مبینہ تعلق ہے۔
ایران کا کردار
دو روز قبل، عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی کی جانب سےموصل میں داعش کی شکست کے اعلان کے بعد، ایران کے پاسدارانِ انقلاب کے القدس دستے کے کمانڈر، جنرل قاسم سلیمانی نے داعش کے خلاف لڑائی میں عراق کی 'پاپولر موبلائزیشن فورسز (پی ایم ایف)' کی قیادت کے ساتھ دستے کے کردار کا تفصیلی حوالہ دیا۔
سلیمانی کے بقول، ''ہم نےاپنے عراقی بھائیوں کو محض اپنی مشاورت پیش نہیں کی، بلکہ ہم نے اُنھیں اپنی مدد فراہم کی، اور گولہ بارود کے اپنے ڈپو کی چابیاں تک پیش کیں، اور 'سکھوئی اسکواڈران' کی فضائی کارروائیوں کے ساتھ اُن کی مدد کی''۔
پی ایم ایف کی نفری کی اصل تعداد واضح نہیں۔ لیکن اندازہ ہے کہ یہ تعداد 100000 سے 120000کے درمیان ہے۔