انڈونیشیا کے صدر جوکو ودودو نے افغان تنازع کے پرامن حل کے لیے اسلامی اسکالروں پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کرنے کی تجویز دی ہے جسے حکومتی سطح پر سراہا تو جا رہا ہے لیکن غیر جانبدار حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد کے فقدان کو دور کیے بغیر تجویز کا قابل عمل ہونا بظاہر ممکن نہیں۔
صدر ودودو نے یہ تجویز پاکستان کےدو روزہ سرکاری دورے کے دوران صدر ممنون حسین کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران دی۔
ایک سرکاری بیان کے مطابق انڈونشیا کے صدر نے کہا کہ اس مجوزہ کمیٹی میں انڈونیشیا، پاکستان اور افغانستان کے مذہبی دانشوروں کو شامل کیا جا سکتا ہے۔
صدر ودودو نے کہا کہ انڈونیشیا افغان امن عمل میں مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔
صدر ممنون نے اس تجویز سے اتفاق کیا ہے اور دونوں ملکوں نے اس ضمن میں مشترکہ کردار ادا کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ علاقائی ترقی اور خوشحالی کے لیے افغانستان میں امن ضروری ہے۔
پاکستان کا موقف ہے کہ افغانستان کا امن و استحکام اسلام آباد اور خطے کے مفاد میں ہے اور اسلام آباد شورش کے شکار اس ملک میں امن و استحکام کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔
پاکستان متعدد بار اس بات کا اعادہ کر چکا ہے کہ وہ افغانستان میں امن و مصالحت کے عمل میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے پرتیار ہے تاہم بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اسی صورت میں یہ کردار ادا کر سکتا ہے جب تک اسلام آباد اور کابل کے درمیان اعتماد پور ی طرح بحال نہیں ہوتا ہے۔
بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر ظفر جسپال نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا اسلام آباد اور کابل کے درمیان اعتماد کی کمی کو دور کرنا پاکستان اور افغانستان دونوں کے لیے چیلنج ہے۔
" انڈونیشیا ایک بڑا مسلمان ملک ہے اور ایک ایشیائی ملک ہونے کے ناطے سے بھی خطے میں اس کا ایک کردار ہے، اگرچہ وہ ایک علاقائی ملک نہیں ہے لیکن پھر بھی وہ افغانستان اور پاکستان کو قریب لانے میں ایک غیر جانبدار ثالث کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ "
انہوں نے کہا کہ مسئلے کا قابل عمل حل تجویز کرنے میں اسلامی دانشوروں کی کمیٹی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
"اسکالر سوچ بچار کر کے کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے نئی متبادل راہیں تجویز کر سکتے ہیں، ان پر کوئی ایسی پابندی نہیں ہوتی ہے کہ سرکاری پالیسی کے مطابق ہی حل تجویز کریں لیکن پالیسی سازوں کے پاس ایسی سہولت نہیں ہوتی ہے۔"
افغانستان میں جاری تنازع کے حل کی متعدد کوششوں کے باوجود تاحال صورت حال جوں کی توں ہے۔