حزب اختلاف کی اصل جماعت کانگریس پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کی جانب سے وزیر اعظم نریندر مودی کی مبینہ ہتک کے ایک معاملے میں گجرات کی ایک مقامی عدالت کی جانب سے سینئر کانگریس رہنما اور رکن پارلیمان راہل گاندھی کو دو سال کی جیل کی سزا سنائے جانے کی مخالفت کی جا رہی ہے اور اسے اپوزیشن کے خلاف جاری حکومت کی مبینہ کارروائیوں کا حصہ بتایا جا رہا ہے۔
کانگریس پارٹی نے کہا ہے کہ یہ راہل گاندھی کو خاموش کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اس فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کیا جائے گا۔انہیں فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے 30 روز کا وقت دیا گیا ہے۔
میڈیا میں ذرائع کے حوالے سے ایسی خبریں ہیں کہ جب تک راہل فیصلے کو چیلنج نہیں کر دیتے اور ان کی اپیل پر سماعت شروع نہیں ہو جاتی وہ پارلیمانی کارروائی میں حصہ نہیں لیں گے۔
کانگریس کے کمیونی کیشن انچارج جے رام رمیش، ترجمان ابھیشیک منو سنگھوی، قومی ترجمان میم افضل اور دیگر رہنماؤں کے علاوہ نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کے صدر شرد پوار، دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال، چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل، سابق وزیر قانون کپل سبل اور دیگر رہنماؤں نے فیصلے کی مخالفت کی ہے۔
میم افضل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اپوزیشن اور بالخصوص راہل گاندھی کے خلاف حکومت کی کارروائیوں کو ناروا قرار دیا۔ ان کے مطابق اب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ وزیر اعظم مودی اور ان کی حکومت اپنے خلاف بولنے والوں کو خوف زدہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان کے خیال میں تمام مبصرین اس بات کو تسلیم کر رہے ہیں کہ یہ فیصلہ انصاف پر مبنی نہیں ہے۔ جس جملے کو ایک طبقے کی ہتک قرار دیا جا رہا ہے، ویسے جملے پہلے بھی بولے جاتے رہے ہیں۔ یہ کوئی نیا معاملہ نہیں ہے۔ کوئی بھی ذی شعور شخص اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ان کے جملے پر دو سال کی سزا دی جا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کر نے جا رہے ہیں۔ ان کے بقول چونکہ راہل گاندھی نے گوتم اڈانی کے معاملے کو اٹھا رکھا ہے اور پوری حزب اختلاف اس معاملے پر پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی سے جانچ کا مطابہ کر رہی ہے اس لیے یہ فیصلہ راہل کو پارلیمانی کارروائی سے باہر رکھنے کی ایک کوشش ہے۔
کانگریس کے صدر ملک ارجن کھرگے نے کہا ہے کہ ہمیں پہلے ہی معلوم تھا کہ اس قسم کا فیصلہ آئے گا۔ کیونکہ بقول ان کے حکومت کی طرفداری والے فیصلے کے لیے ججز کو بار بار تبدیل کیا جا رہا تھا۔
SEE ALSO: بھارت: راہل گاندھی کو ’مودی‘ کی ہتک کےمقدمے میں دو سال کی سزا کے بعد ضمانتکانگریس نے اس معاملے پر غور کرنے کے لیے جمعے کو اپوزیشن جماعتوں کی ایک میٹنگ طلب کی ہے۔ جے رام رمیش کے مطابق یہ قانونی معاملہ نہیں بلکہ سنگین سیاسی معاملہ ہے جو جمہوریت کے مستقبل سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ قدم مودی حکومت کے انتقام، دھمکی اور ہراساں کرنے کی سیاست کا ایک حصہ ہے۔
اس معاملے پر سیاسی و صحافتی حلقوں میں بحث و مباحثہ جاری ہے۔ نہ صرف قومی الیکٹرانک میڈیا بلکہ سوشل میڈیا پر بھی اظہار خیال کیا جا رہا ہے۔ یو ٹیوب چینلز پر بھی گروپ مباحثے کیے جا رہے ہیں۔
سینئر تجزیہ کار آلوک جوشی کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ راہل گاندھی کے لیے سیاسی طور پر نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے اور فائدہ مند بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر راہل خود کو ایک مظلوم کے طور پر پیش کریں گے اور کہیں گے کہ ان پر حملہ ہو رہا ہے تو اس سے ان کو کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہوگا۔ البتہ اگر عوام خود ہی ایسا سمجھنے لگیں تو وہ بات دوسری ہے۔
ایک اور تجزیہ کار شیتل سنگھ کا کہنا ہے کہ اروند کیجری وال کی جانب سے راہل کی حمایت کرنا اور فیصلے کو اپوزیشن پر حملہ قرار دینا اپنے آپ میں بہت اہم ہے۔ ان کے بیان سے اپوزیشن اتحاد کی جو کوشش کمزور پڑ رہی تھی وہ اب پھر سے شروع ہو جائے گی۔
خیال رہے کہ میم افصل نے بھی کیجری وال کے بیان کو بہت اہم قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ دہلی میں ہماری اصل حریف جماعت عام آدمی پارٹی ہی ہے۔ لیکن کیجری وال بھی یہ بات سمجھ رہے ہیں کہ اگر اپوزیشن متحد نہیں ہوئی تو مودی حکومت سب کا راستہ مشکل کر دے گی۔
اس وقت سیاسی و صحافتی حلقوں میں جو سب سے بڑا سوال اٹھ رہا ہے وہ یہ ہے کہ کیا راہل گاندھی کی پارلیمانی رکنیت منسوخ ہو جائے گی۔ وہ کیرالہ کے وایناڈ سے رکن پارلیمان ہیں۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 10 جولائی 2013 کو اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ اگر کسی ایم پی، ایم ایل اے اور ایم ایل سی کو کسی معاملے میں دو سال یا اس سے زائد کی سزا سنائی جاتی ہے تو اس کی رکنیت از خود منسوخ ہو جائے گی۔
SEE ALSO: راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا سے کانگریس کو کیا ملا؟میم افضل کہتے ہیں کہ عدالت سے جان بوجھ کر دو سال کی سزا دلوائی گئی ہے تاکہ راہل کی رکنیت منسوخ ہو جائے۔ لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ ایک سابق سفارت کار کی حیثیت سے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ ان کی رکنیت کو منسوخ کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ فیصلے کو اعلیٰ عدالت، پھر ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔
اس سے قبل راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے صدر اور بہار کے سابق وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادو کو بدعنوانی کے ایک معاملے میں دو سال کی سزا سنائی گئی تھی اور ان کی رکنیت ختم ہو گئی تھی۔
اسی طرح سماج وادی پارٹی کے رامپور سے رکن پارلیمان اور سابق ریاستی وزیر اعظم خان کو ہیٹ اسپیچ کے ایک معاملے میں اکتوبر 2022 میں تین سال کی سزا سنائے جانے کے بعد ان کی رکنیت منسوخ ہو گئی۔
جب کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اترپردیش کے ایک رکن اسمبلی وکرم سینی دو سال کی سزا سنائے جانے کے بعد رکنیت سے محروم ہو گئے تھے۔
سینئر وکیل سدھارتھ لوتھرا نے نشریاتی ادارے انڈیا ٹوڈے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ راہل گاندھی اپیل دائر کرکے فیصلے پر روک لگانے یا اسے کالعدم قرار دینے کی درخواست کر سکتے ہیں۔
ان کے بقول فوجداری کی دفعہ 374 اپیل کا حق دیتی ہے۔ راہل کو پہلے سیشن کورٹ میں اپیل کرنا ہوگی۔ اگر وہاں سے انھیں راحت نہیں ملتی ہے تو وہ ہائی کورٹ جا سکتے ہیں۔
ان کے خیال میں راہل گاندھی کے پاس دفعہ 389 کے تحت فیصلے کو کالعدم کرانے کی اپیل کا آپشن بھی ہے۔ اس دفعہ کے تحت سزا کو معطل یا منسوخ کیا جا سکتا ہے۔
SEE ALSO: بھارت: کانگریس کے سینئر رہنما ارجن کھرگے پارٹی کے نئے صدر منتخبان کا یہ بھی کہنا تھا کہ راہل گاندھی آئین کی دفعہ 136 کے تحت سپریم سے رجوع کر سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی کورٹ یا ٹریبیونل کی جانب سے سنائے جانے والے حکم یا سزا سے راحت دے سکتی ہے۔
ریاست چھتیس گڑھ کے کانگریسی وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل کا کہنا ہے کہ اس قسم کے بیانات پہلے بھی دیے جاتے رہے ہیں۔ خود بی جے پی کے رہنماؤں نے راہل گاندھی کو ’میر جعفر‘ کہا تھا۔
میم افضل کے مطابق وزیر اعظم مودی راہل گاندھی، کانگریس کی سابق صدر سونیا گاندھی اور سینئر کانگریس رہنما اور رکن پارلیمان ششی تھرور کی اہلیہ کے لیے انتہائی نازیبا کلمات ادا کر چکے ہیں۔
اسی درمیان اخبار انڈین ایکسپریس نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اگر لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا کی میز پر یہ معاملہ لایا گیاتو ان کی رکنیت کی منسوخی کی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ تاہم قانونی ماہرین اس کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر ہی کوئی فیصلہ کریں گے۔
ادھر مختلف ریاستوں میں کانگریسی کارکنوں کی جانب سے مذکورہ فیصلے کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے۔ تمل ناڈو میں کانگریسی کارکنوں نے اپنے بازوؤں پر سیاہ پٹی باندھ کر اسمبلی کے باہر احتجاج کیا۔ انہوں نے ریل گاڑیاں روکنے کی بھی کوشش کی۔
فیصلہ سنائے جانے کے بعد بی جے پی کے متعدد رہنماؤں کی جانب سے راہل گاندھی کی مذمت کی جا رہی ہے۔ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں راہل کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بعض اوقات الفاظ ہتھیاروں سے بھی زیادہ ہلاکت خیز ہو سکتے ہیں۔
بی جے پی کا کہنا ہے کہ اگر راہل گاندھی لوگوں کو گالیاں دیں گے تو قانون اپنا کام کرے گا۔ سینئر بی جے پی رہنما روی شنکر پرساد نے متعدد ججز تبدیل کیے جانے کے ملک ارجن کھرگے کے بیان کی مذمت کی۔
یاد رہے کہ راہل گاندھی نے 2019 میں کرناٹک کے شہر کولار میں تقریر کرتے ہوئے ملک سے باہر فرار ہو جانے والے تاجر نیرو مودی اور للت مودی کے حوالے سے کہا تھا کہ ’تمام چوروں کا مشترکہ سر نیم مودی کیوں ہے‘۔
ان کے اس بیان کے خلاف گجرات کے رکن اسمبلی اور سابق ریاستی وزیر پرنیش مودی نے عدالت میں مقدمہ دائر کیا تھا اور کہا تھا کہ راہل کے بیان سے ان کی ہتک ہوئی ہے۔