انسانی حقوق کی ایک موقر بین الاقوامی تنظیم نے کہا ہے کہ پاکستان میں اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف دھمکیوں پر مبنی ایک مبینہ مہم جاری ہے جس میں ان کے کام کو غیر قانونی قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے نتیجتاً ایسے لوگوں کی سلامتی کے لیے سنگین خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بدھ کو پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے نام ایک کھلے خط میں حکام سے صحافیوں، بلاگرز، سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے دیگر کارکنوں کے تحفظ کے لیے فوری اقدام کا مطالبہ کیا جنہیں تنظیم کے بقول ملک میں مستقل دباؤ، ہراس، دھمکیوں اور تشدد پر مبنی حملوں کا سامنا ہے۔
جنوبی ایشیا سے متعلق ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سینیئر مشیر ڈیوڈ گریفتھس اس خط میں کہتے ہیں کہ صحافیوں، بلاگرز، انسانی و سماجی حقوق کے کارکنوں کا کام ایک آزادانہ و منصفانہ معاشرے کے لیے بہت اہم ہے۔
خط میں پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل "بول" پر نشر ہونے والے پروگرام "ایسے نہیں چلے گا" کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس میں انسانی حقوق کے نمایاں کارکنوں اور صحافیوں کو مبینہ طور پر نشانہ بنایا گیا جس سے انھیں جان سے مار دینے کی دھمکیاں سامنے آئیں۔
گریفتھس کے بقول "یہ ایسے خطرات ہیں جن سے پاکستانی حکومت کو صرف نظر نہیں کرنا چاہیے۔"
گزشتہ ماہ ہی پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے اس ٹی وی چینل کو یہ پروگرام کو تاحکم ثانی نشر نہ کرنے کا حکم دیا تھا۔
ملک میں الیکٹرانک میڈیا کے نگران ادارے "پیمرا" کے مطابق اس پروگرام میں میزبان عامر لیاقت نے نفرت انگیز الفاظ استعمال کیے تھے۔
رواں سال جنوری میں اچانک لاپتا اور پھر تقریباً دو ہفتوں بعد ایسے ہی پراسرار حالات میں بازیاب ہونے والے چار بلاگرز کے خلاف مختلف حلقوں خصوصاً سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ایسے بیانات سامنے آتے رہے جن میں ان افراد پر توہین مذہب کا ارتکاب کرنے کا الزام عائد کیا جاتا رہا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنے خط میں کہا کہ اس کی تشویش کی بنیاد پاکستان میں حالیہ دہائیوں میں پیش آنے والے واقعات سے متعلق اس کی جمع کردہ تفصیلات ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ توہین مذہب اور بے بنیاد الزامات کی مہم سے صحافیوں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کے لیے خطرات نے جنم لیا اور بعض واقعات میں انھیں جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔
سینیئر صحافی ضیاالدین وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اتفاق کرتے ہیں کہ صحافیوں اور دیگر اختلافی آوازوں کے لیے حالات سازگار نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مذہب کا سہارا لے کر اگر کسی کی مخالف شروع کر دی جائے تو اس سے نمٹنا انتہائی مشکل ہے۔
ڈیوڈ گریفتھس کا کہنا تھا کہ "حکام کو ایسے فیصلہ کن اقدام کرنے چاہیئں جن سے ایک ایسا محفوظ اور قابل عمل ماحول پیدا ہو جس میں بلا خوف و خطر انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بنانا ممکن ہو۔"
تاحال وزارت داخلہ کی طرف سے اس پر کوئی ردعمل تو سامنے نہیں آیا ہے لیکن حکام یہ کہتے آئے ہیں کہ دہشت گردی کے شکار ملک میں صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو ویسے ہی خطرات لاحق ہیں جیسے کسی دوسرے شعبے سے تعلق رکھنے والوں۔ لیکن حکومت نے خاص طور پر صحافت سے وابستہ افراد کے تحفظ کے کئی ٹھوس اقدام کیے ہیں۔