کرونا وائرس: کیا امریکہ میں تازہ پھلوں سبزیوں کی فراہمی متاثر ہونے والی ہے؟

  • مدثرہ منظر

فائل فوٹو

سبزی اور پھل انسانی خوراک کا اہم جز ہے۔ مگر امریکہ میں کرونا وائرس نے ملٹی وٹامن کے اس ذریعے کو بھی زبردست نقصان پہنچایا ہے۔

گھر میں جب بہت سی سبزیاں ملا کر پکائی جاتی تھیں تو انہیں ملٹی وٹامن کا نام دیا جاتا تھا۔ لیکن، یہ ملٹی وٹامن مجبوراً کھانا پڑتا تھا، کیونکہ گوشت کے مقابلے میں سبزی ذرا کم ہی پسند آتی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

کرونا وائرس: کیا تازہ پھلوں سزبوں کی ترسیل جاری رہ سکے گی۔

آپ اس سے اختلاف بھی کر سکتے ہیں۔ ویسے ہوا یہی کہ شعور کے ساتھ ساتھ سبزیوں کی افادیت بھی بڑھی اور پھر ویجیٹیریں ہونے پر فخر محسوس کیا جانے لگا۔

ہوتا یہی ہے۔ انسان اس چیز پر فخر کرنے لگتا ہے جو عام لوگوں میں اسے قابلِ تعریف بنائے۔ اور عام تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ سبزیاں کھانے سے ہمیں بہت سے وٹامن ملتے ہیں، صحت اچھی رہتی ہے۔ کولیسٹرول کم ہوتا ہے اور ڈائیٹری فائیبر بھی ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں سبزیاں خوراک کا اہم جزو ہیں اور قدرت بھی انہیں فرّاخ دلی سے پیدا کرتی ہے۔

امریکہ کی بات کیجئے تو یہاں انواع و اقسام کی سبزیاں ہر موسم میں دستیاب ہوتی ہیں۔ امریکہ کی ملکی پیداوار کا ایک فیصد زراعت سے آتا ہے۔ مویشیوں اور ڈیری فارمز کے علاوہ مکئی جیسی فصلیں امریکہ میں پیداوار کے تین بڑے ذرائع ہیں۔ اور یہ پیداوار اتنی زیادہ ہے کہ امریکہ برآمد بھی کرتا ہے۔

2014ء میں کسانوں نے 135.5 ارب ڈالر کی اشیا برآمد کیں۔ امریکی معیشت میں زراعت بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اس سے نہ صرف خوراک کی امریکی ضروریات پوری ہوتی ہیں بلکہ ملازمتیں بھی پیدا ہوتی ہیں اور معیشت ترقی کرتی ہے۔ یہی چیز امریکہ کو دنیا بھر میں زرعی اشیا برآمد کرنے والے ممالک میں نمایاں مقام دیتی ہے۔ لیکن، امریکہ کا یہ امتیاز آج کل خطرے میں نظر آتا ہے۔ کرونا وائرس کی وبا نے جہاں زندگی کے باقی تمام شعبوں کو متاثر کیا ہے وہیں زراعت بھی متاثر ہوئی ہے۔ خاص طور پر سبزیاں اور پھل اور ڈیری کی صنعت۔

امریکی ریاست وسکانسن اور اوہائیو میں ڈیری فارم ہزاروں گیلن دودھ گڑھوں میں ڈال کر ضائع کر رہے ہیں۔ کیونکہ مارکیٹیں اور ریستوران بند ہیں اور مانگ کم ہو گئی ہے اور دودھ کو مارکیٹ تک پہنچانے والی کمپنیاں اس کی ترسیل سے قاصر ہیں کیونکہ انہیں ٹرک دستیاب نہیں۔

امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں ترسیل کے کاروبار سے وابستہ شاہ زیب کہتے ہیں کہ ٹرکوں کی آمدورفت پر کوئی پابندی تو نہیں ہے۔ مگر ڈرائیوروں کا ملنا مشکل ہو گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کرونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن نے ہر شعبے میں ورک فورس کم کر دی ہے۔ ٹرک آجا تو رہے ہیں مگر ڈرائیوروں کی کمی امریکہ میں ہمیشہ ہی رہی ہے۔ ان کے خیال میں اس کی ایک وجہ مانگ میں اضافہ بھی ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ کیا کسان خود اپنی فصل مارکیٹ میں نہیں لا سکتے شاہ زیب کا کہنا تھا کہ جن کے پاس اپنے ٹرک اور ڈرائیور ہوں وہی ایسا کر سکتے ہیں۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق ریاست آیئڈاہو میں ایک کسان نے10 لاکھ پاؤنڈ پیاز ضائع کر نے کیلئے ایک بہت بڑا گڑھا کھودا ہے۔ اور ریاست فلوریڈا میں جو امریکہ کے مشرقی حصّے کی غذائی ضروریات پوری کرتی ہے، ٹریکٹر بینز اور گوبھی کی تیار فصل پر ہل چلا کر انہیں دوبارہ زمین کا حصّہ بنا رہے ہیں۔

اس ریاست کے شہر میامی میں مریکل لائف فارمز کے مالک شان آرپ کہتے ہیں جب پھل یا فصل پک کر مارکیٹ میں نہ جا سکے تو اسے زمین کا حصّہ ہی بنا دینا چاہیئے تاکہ کھاد کے کام تو آسکے۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس امرود کے 10 ہزار درخت ہیں اور 13 ایکڑ پر پھیلے ان کے باغات میں دیگر پھلوں کے بھی درخت ہیں۔ لیکن پھل درختوں پر ہی خراب ہو رہا ہے کیونکہ کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے نیویارک بند ہے اور ان کا پھل زیادہ وہیں جاتا تھا۔

حکومت بھی نہیں خرید رہی اور ریستوران بھی بند ہیں۔ ایک ویب سائٹ کے ذریعے آرڈر تو آ رہے ہیں مگر صرف ایک یا دو ڈبوں کیلئے، جبکہ وہ لاکھوں پاؤنڈز کے حساب سے فراہم کرتے ہیں۔

شان نے بتایا کہ حکومت نے بحالی کے جس پیکیج کا اعلان کیا ہے اس میں چھوٹے کاروباروں کیلئے تو کچھ رقم رکھی ہے مگر ہم درمیانے درجے سے کچھ اوپر ہیں تو صرف ٹیکس میں چھوٹ مل سکتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ہم برداشت تو کر لیں گے مگر ایک لاکھ ڈالر کا نقصان پہلے ہی ہو چکا ہے۔ انہیں ڈر ہے کہ اگر تین چار ماہ ایسا ہی رہا تو مشکل ہوگی اور چھوٹے کسان تو زمین بیچنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اور پھر ملازمین بھی نہیں رہیں گے جن کی خصوصی تربیت ہوتی ہے اور امرود کے فارم پر کام کرنے والا کارکن پیاز کے کسان کے ساتھ کام نہیں کر سکتا۔ اور ان میں سے اکثر فارمر ویزے پر آتے ہیں اور چھ ماہ کام کرکے واپس چلے جاتے ہیں۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب مارکیٹ میں مانگ بڑھ گئی ہے سپلائی پر توجہ کیوں نہیں ہے۔ جاگیر سنگھ 'سبزی منڈی' نامی گروسری سٹورز کی چین کے مالک ہیں زیادہ تر ان کا کاروبار امریکی ریاست نیو جرسی میں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اکثر ان کے پاس کھانے کے خشک سامان کا ذخیرہ رہتا ہے مگر دودھ پنیر جیسی اشیا کو فریزر یا گودام میں نہیں رکھا جا سکتا اور نہ ہی سبزی کو۔

وہ کہتے ہیں کہ کچھ عرصے کیلئے ٹرک سروس بند ہوئی تو ان اشیا کی کمی ہوگئی تھی۔ مانگ میں اضافہ بہت زیادہ تھا اور ہم صرف آن لائن آرڈرز ہی لے رہے تھے۔ مگر اب سٹور بھی کھل گئے ہیں اور ہم ایک دفعہ میں 10 گاہکوں کو اندر جانے کی اجازت دیتے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ اب سپلائی بہتر ہو جائے گی۔

صدر ٹرمپ بھی چاہتے ہیں کہ ملک کو جلد کھول دیا جائے مگر اس سب کا انحصار صرف اور صرف کرونا وائرس کی وبا پر ہے۔ اس وائرس کا زور کم ہوا تو سب آہستہ آہستہ معمول پر آجائے گا مگر شاید وہ نقصان کبھی پورا نہ ہو جو لاکھوں گیلن دودھ اور لاکھوں پاؤنڈ سبزیاں زمین میں دفن ہو جانے سے ہوا ہے۔