نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی وزیر خارجہ ، ہلری کلنٹن نے پاکستان کے اپنے حالیہ دورے میں اپنے میزبانوں کی یقین دہانی کر دی ، کہ افغانستان کے بارے میں مصالحت کے لئے جو مذاکرات ہونگے۔ ان میں ان کا مرکزی کردار ہوگا۔ اخبار نے ایک سرکردہ امریکی عہدہدار کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاکستانیوں نے کو اطمینان ہے کہ مصالحت کے امر پر پیش رفت ہوئی ہے اور یہ کہ انہیں ایک کردار ادا کرنا ہے۔
اخبار نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ حقّانی نیٹ ورک کے ساتھ اگست کے اواخر میں جو مذاکرات شروع ہوئے تھے، اُنہیں دوبارہ شروع کیا جائےگا۔ ان کا آغاز خفیہ تھا۔ جس میں ایک درمیانی درجے کے امریکی سفارت کار اور اس نیٹ ورک کے سربراہ کے ایک بھائی ابراہیم حقّانی شریک ہوئے تھے، اخبار کے بقول یہ مذاکرات آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل احمد شُجاع پاشا کی وساطت کے ذریعے ممکن ہوئے تھے۔ امریکی اور پاکستانی عہدہداروں کے حوالے سے اخبار کہتا ہے کہ ان مذاکرات میں کُچھ بھی حاصل نہ ہوسکا تھا۔ بلکہ ان کے محض دو ہفتوں کے بعد کابل میں امریکی سفارت خانے پر حملہ ہوا تھا، جو 20گھنٹے جاری رہا ۔
اخبار کہتا ہے کہ بعض امریکی قانون سازوں نے حقانی نیٹ ورک کے بارے میں اوباما انتظامیہ کے طرزعمل پر بد گُمانی کا اظہار کرتے ہوئے وزیر خارجہ ہلری کلنٹن سے پوچھا تھا کہ اس نیٹ ورک کے ساتھ آپ کی پالیسی کریک ڈاؤن کی ہے یا مصالحت کی۔ جس کے جواب میں انہوں نے کہا تھا۔ کہ دونوں، ہم بیک وقت لڑنا بھی چاہتے، مذاکرات بھی کرنا چاہتے ہیں اور تعمیر کا کام بھی جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم اس کا امتحان کرنا چاہتے ہیں۔ کہ آیا ان تنظیموں میں نیک نیّتی کے ساتھ مذاکرات کرنے کی خواہش ہے یا نہیں۔
سنہ 2014 میں امریکی اور اتحادی فوجوں کے انخلا ٴ تک کیا افغانستان کی فوج اس لائق ہو جائے گی کہ ملک کی سیکیورٹی کی ذمہ داریاں سنبھال سکیں۔ اخبار یو ایس ٹوڈے کی ایک رپورٹ میں اس کا جواب اثبات میں ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ افغان فوج اور پولیس اس کی تیاری کر رہی ہے۔ اگرچہ نیٹو کے عہدہ دارو ں کو اعتراف ہے کہ بھگوڑوں کا مسئلہ موجود ہے اور اس کے علاوہ افغانستان کواگلے دو سال کے دوران اپنی افواج کو برقرار رکھنے اور انہیں بہتر تنخواہ دینے کے لئے 4 ارب ڈالر کی بھاری رقم کی ضرورت ہوگی۔ تاکہ 2014 کے بعد سے ، جب صدر اوبامہ افغانستان سے امریکی فوجوں کا مکمّل انخلا چاہتے ہیں، یہ افواج اپنا فرض نبھا سکیں۔
افغان فوجوں کو تربیت دینے کے پروگرام کےلئے امریکی افسر برگیڈئیر ٹموتھی رے کے حوالے سے اخبار کہتا ہے۔ کہ جب تربیت کا یہ کام شروع کیا گیا تھا ۔تو اس وقت یا طالبان تھے یا قبائلی سردار۔لیکن اب حالات بدل گئے ہیں۔افغانستان کے لئے نیٹو کے تربیتی پروگرام کے اعلیٰ بجٹ افسر، میجر جنرل پیٹر فُلر کے مطابق اس تربیت میں زور اس پر رہا ہے کہ مضبوط عمارات اور ایسا سازوسامان فراہم کیا جائے ، جو افغانستان کے موسمی حالات اور کلچر کی مطابقت میں ہوں۔فوجی بیرکیں چوڑی دیواروں کی بنائی جائیں گی جن میں ائیر کنڈشننگ کی جگہ پنکھے ہونگے۔
افغان فوج کی تربیت اور سازوسامان کے اخراجات کا بوجھ امریکی ٹیکس گذار ادا کر رہے ہیں۔سنہ 2010 میں اس پر اٹھنے والا خرچ 9.2 ارب ڈالر تھا، 2011 میں11.6 ارب اور 2012 میں یہ 11.2 ارب ہوگا۔ اس خرچ کا نصف حصّہ تعمیر اور سازوسامان کے لئے تھا۔ یہ خرچ اگلے سال کم ہو جائےگا ۔ جب بیشتر افغان افواج اپنی بیرکون میں منتقل ہو جائیں گی ، اور وُہ سازو سامان سے لیس ہونگی۔ میجر جنرل فُلر کہتے ہیں کہ ہم یہ بات یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ افغانوں کے لئے صحیح بنیادی ڈھانچہ قائم ہو۔
اخبار نے محکمہء دفاع کی ایک رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے۔ کہ اکتوبر سنہ 2012 تک افغان افواج مقرّرہ حدف حاصل کر لیں گی ۔ جب مسلّح افواج کی تعداد ایک لاکھ 95 ہزار اور پولیس کی نفری ایک لاکھ 57 ہزار ہو جائے گی۔ رپورٹ کے مطابق افغانستان کو 145 طیّاروں اور 8000 کارندوں پر مشتمل فضائی فوج کی بھی ضرورت ہوگی۔ جو فی الحال افغان اکیلے ہی نہیں چلا سکہیں گے ۔