مسلمان امریکی نوجوان نسل اور مساجد

American-Muslim-Masjid

امریکی معاشرے جیسےماحول میں جہاں مسلمانوں کی اکثرئیت نہیں وہاں نوجوان نسل کو اسلامی فرائیض و عبادات سے متعارف کرانے کے چیلنج کو مساجد کی مدد سے آسان بنایا جاسکتا ہے۔لیکن اس کے لیئے مساجد کو اپنے رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ امام جوہری

بچے بے فکری کے ساتھ فٹ بال کھیلنے میں مصروف تھے۔ کچھ ہی فاصلے پر کپڑوں، گھریلو اشیا، کھلونوں اور کھانے پینے کی چیزوں کے سٹالز تھے۔ یہاں لڑکیوں اور خواتین کا رش تھا۔ ایک جانب بچوں کے لیئے جھولے اور جمپنگ کاسل jumping castle پر اپنی باری کے منتظر بچوں کی لائینز لگی تھیں۔بلکل کسی پاکستانی سکول یا بازار کے مینا بازار کا منظر لگ رہا تھا۔ فنکشن تو یہ بھی مینا بازار سے ملتا جلتا ہی تھا، کیونکہ یہ ایک فیملی پکنک تھی۔ لیکن، نہ یہ کسی سکول میں ہو رہی تھی اور نہ ہی کسی پارک میں۔ بلکہ یہ امریکی ریاست ورجینیا کے شہر فالز چرچ کی ایک مسجد دارلحجرا میں منعقد کی گئی تھی۔ امریکہ میں مساجد کی بڑی تعداد نے اپنا رول نماز کی ادائیگی اور دینی تعلیم تک محدود نہیں رکھا۔ دارلحجرا مسجد کے آوٹ ریچ ڈیپارٹمینٹ کے ڈائیریکٹر امام جوہری عبدالمالک کے مطابق آج مساجد اس رول کو چھوڑ چکی ہیں جو آ نحضور ﷺ کے دور میں مساجد کا ہوا کرتا تھا۔ اور یہ رول ایک کمیونیٹی سینٹر کا تھا۔آج مساجد اس رول کو چھوڑ چکی ہیں۔ یہاں لوگ آتے ہیں نماز پڑھتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ لیکن، رمضان میں یہ ایک بار پھر سے آباد ہو جاتی ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

Masjid And Muslim Youth

پکنک میں موجود لوگوں نے اتفاق کیا کہ امریکہ میں ایک اقلیت ہوتے ہوئے نوجوان نسل کو اسلامی عبادات و روایات سے متعارف کروانا اور ان کا عادی بنانا ایک چیلنج ہوتا ہے۔ ریاست میری لینڈ کی رہائیشی عنبرین پاکستان سے آکر امریکہ آباد ہوئی ہیں۔ ان کے مطابق، پاکستان میں اس چیز کو ’فار گرانٹد‘ لیا جاتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں۔ لاوٴڈ سپیکر پر آذان ہوئی اور پتہ چل گیا کہ نماز کا وقت ہے۔ یہاں آسانیاں بھی ہیں۔ لیکن، چیلنج یہ ہے کہ آپ نے خود سے ’سیلف اوئیر‘ ہونا ہے۔

مسجد کے ہی علاقے میں بڑے ہونے والے ایڈم کہتے ہیں کہ آج کے مقابلے میں ان کی عمر کی نسل کو امریکہ میں اپنی شناخت کی تلاش کے چیلنج کا زیادہ سامنا کرنا پڑا۔ ان کے مطابق، اس زمانے میں انہیں مسجد میں نظر آنے والی ان با اثر مسلم شخصیات سے بڑی مدد ملی جنہوں نے امریکی معاشرے کا حصہ ہوتے ہوئے اپنی مسلم شناخت کو قائم رکھا تھا۔

امام جوہری عبدالمالک کہتے ہیں کہ امریکہ کی بہت سی دوسری مساجد کی مانند دارالحجرا مسجد بھی خاص طور سے بچوں اور نوجوانوں کے لیئے رمضان میں سپیشل پروگرامز کا اہتمام کرتی ہے۔ لیکن، ان سب سے اہم وہ کوشش ہے جو امریکہ میں اس جیسی مساجد مسلم کمیونیٹی کو باقی کے امریکی معاشرے کے قریب لانے کے لیئے کرتی ہیں۔ امام کی رائے میں معاشرے کی دوسری کمیونیٹیز کو مسلمانوں کے قریب لانے سے ایک ایسا ماحول بنے گا جو مسلم نوجوان نسل کو خود سے دینی فرائض کی ادائیگی کی طرف راغب کرے گا۔ ان کے مطابق، وہ یہ کام میڈیا، چرچز، سیاسی لیڈرز اور مقامی انتظامیہ سے رابطے کے ذریعے کرتے ہیں، جیسے کاونٹی حکومتوں کے ذریعے اعلان کرواتے ہیں کہ آج سے امریکہ میں رمضان کا آغاز ہو رہا ہے۔

اس کے علاوہ، امام جوہری نے یہ بھی کہا کہ مساجد کو اپنے ماحول کو نوجوان نسل کے لیے زیادہ پرکشش بنانے کے لیے اپنے رویوں میں تبدیلی لانی چاہیئے،
تاکہ وہ مسجد کی طرف اس ہی شوق سے دوڑے چلے آئیں جس کے ساتھ وہ اپنے گھر، کھیل کے میدان یا پکنک پر جاتے ہیں۔ امریکہ جیسے معاشرے میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں یہ اور بھی ضروری ہے۔