سوسال پرانی امریکی ثقافت کی تصویری نمائش

سابق امریکی صدر تھیوڈور روزویلٹ


امریکی ثقافت اور معاشرت کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے میں ایک اہم کردار ہالی ووڈ کی فلموں کا بھی ہے۔ اور اس حوالے سے پرانی امریکی ثقافت کے کاؤ بوائز اور انڈینز جیسے کردار آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں ۔ مگر حال ہی میں واشنگٹن ڈی سی کی نیشنل آرٹ گیلری میں لگائی جانے والی ایک نمائش میں ایسے فن پارے رکھے گئے ہیں جن میں ایک صدی پرانی امریکی تہذیب کے نقوش اجاگر کیے گئے ہیں۔

ان تصاویر میں بہت سے چہرے شناسا دکھائی دیتے ہیں۔جارج آرمسٹرانگ کسٹر کی یہ تصویر اس جنگ کے 16 برس بعد بنائی گئی جس میں ان کے جنگ جو ساتھی ہار گئے تھے۔

فیسز آف دی فرنٹیئر کے نام سے منعقد کی جانے والی اس نمائش کے منتظم فرینک گڈ ائیر ہیں۔ انہوں نے اس نمائش کے لیے سو سے زیادہ فن کاروں کی تصاویر کا انتخاب کیا ہے۔ان کاکہناہے کہ آپ کو ان تصاویر کو دیکھ کر اندازہ ہو جائے گا کہ کس طرح مختلف پس منظروں سے تعلق رکھنے والے افراد مغربی امریکہ کے لیے اکٹھے ہوئے۔

امریکی معاشرت کے خدوخال بدلنے میں کچھ افراد کا کردار نمایاں رہا جیسا کہ جوزف گلڈن ، جنہوں نے بارڈر وائر ایجاد کی تھی۔ جس کے نتیجے میں بڑی بڑی چراہگاہیں مویشیوں کے باڑوں میں تبدیل ہوئیں۔ اور اسی طرح روز ویلٹ کی شخصیت ہے جنہوں نے 1901سے پہلے اپنا دورنارتھ ڈکوٹا میں اپنے وسیع فارم میں گزرا اور وہ بعد میں امریکی صدر منتخب ہوئے۔

فرینک گڈایئر کہتے ہیں کہ جب روزویلٹ صدر بنے تو انہوں نے مغربی امریکہ کے لیے اپنی محبت کا اظہار قانون سازی کے ذریعے کیا۔ انہوں نے نیشنل پارکس اور جنگلوں کے لیے زمین مختص کرنے کے ساتھ ساتھ مغرب میں واقع قدرتی ذرائع کے حوالے سے ملکی بحث کا آغاز بھی کرایا۔

انہی تصاویر میں ایک تصویر لیوی سٹریس کی ہے ۔ جینز پہننے والا کون شخص ہوگا جو اس معروف نام سے آگاہ نہیں ہے۔ انہوں نے کان کنوں کی ضروریات سمجھتے ہوئے کئی چیزیں متعارف کرائیں۔ ان کی ڈیزائن کردہ جینز کان کنوں میں بہت مشہور ہوئی۔

نمائش میں شامل ایک تصویر جان ویسلی پاول کی ہے جنہوں نے کولیراڈو دریا عبور کیا۔ اسی طرح چارلس رسل جیسے آرٹسٹ اورایڈورڈ مے برج جیسے فوٹوگرافرکے فن پارے بھی اس نمائش میں شامل ہیں۔ فرینک کا کہناہےکہ وہ ایک بہت ہی منجھے ہوئے فوٹوگرافر تھے۔ ان کی تصویروں نے دنیا کو اس سرزمین کی خوبصورتی سے آشنا کیا۔

ماضی کی ان شخصیات میں ایک تصویر سموئیل کلیمنز کی بھی ہے جنہوں نے ادب کے مغربی مزاج سے مشرق کو متعارف کرایا۔ کلیمنز کا قلمی نام مارک ٹوئن تھا۔ امریکی ادب میں مغربی آواز کو شامل کرنے کا اعزاز انہی کو حاصل ہے۔ 1860ء کے عشرے میں لکھی گئی ان کی مختصر کہانیاں اور ناول بہت مقبول ہوئے۔

گڈائیر کا کہنا ہے کہ اس نمائش میں رکھے گئے فن پارے امریکہ کی80 سال کی تاریخ کی ترجمانی اور اس عرصے میں تبدیلی کے عمل کو نمایاں کرتے ہیں۔

اسی عرصے میں ریلوے نظام کی تکمیل اورپانچ لاکھ مربع میل کے علاقے کو موجودہ امریکہ میں شامل کرنا، امریکہ کے قدیم باشندوں اور نئے آنے والوں کے درمیان لڑائیاں ، یہ تاریخ ان فن پاروں میں موجود ہے۔