کرونا وائرس کے نتیجے میں دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح امریکہ میں بھی زندگی کے تمام اہم شعبوں پر گہرے اثرات بدستور جاری ہیں جن میں نومبر کا صدارتی انتخاب بھی شامل ہے۔ الیکشن کو جب کہ تقریبا چھ مہینے ہی رہ گئے ہیں، معمول کی سیاسی سرگرمیاں جو ایسے موقع پر دیکھنے آتی رہی ہیں، وہ لاک ڈاون کی وجہ سے عام نظر نہیں آ رہی اور بظاہر میڈیا خاص کر ٹیلی ویژن تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار اس جانب توجہ دلاتے ہیں کہ ملک میں جب کہ بعض کاروبار کھل رہے ہیں، بائیڈن اور ٹرمپ دونوں کو اس انتخاب میں کامیابی کے لئے اپنے اپنے طور پر چیلنجوں کا سامنا ہے، دونوں فی الوقت اس بات کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں کہ انتخابی مہم کا نقشہ کس طرح بنایا جائے۔
ابھی جب کہ کرونا وائرس بدستور انسانی جانوں کو نگلتا جا رہا ہے اس بات کے لئے بھی احتجاج اور دباؤ بڑھ رہا ہے کہ زبردست اقتصادی بحران کے پیش نظر کاروباری زندگی کو جلد بحال کیا جانا چاہئے
لیکن ماہرین کے مطابق بندش کا خاتمہ بہرحال اتنا آسان فیصله بھی نہیں۔ اس فیصلے پر مختلف آرا اور سوچ پائی جاتی ہے، مثلاً اوہائیو کی ریاست کے گورنر مائیک ڈیوین کا کہنا ہے کہ یہ ایک توازن رکھنے والی بات ہے۔ ہمیں معیشت کو بحال کرنا ہے تو دوسری جانب لوگوں کا تحفظ بھی ضروری ہے۔
یاد رہے کہ صداتی انتخابات میں اوہائیو اور ایریزونا کی ریاستیں ٹرمپ کے لئے اہمیت رکھتی ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کئی ہفتوں میں پہلی مرتبہ انھوں نے ان دونوں ریاستوں کے دورے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس بارے میں اعلان ایک ایسے وقت میں دیکھنے میں آیا ہے جب انتخابی معرکہ میں صدارتی امیدوار جو بائیڈن رائے عامہ کے جائزوں میں ٹرمپ سے آگے دکھائی دیتے ہیں۔
سیاسی مبصرین اس جانب توجہ دلاتے ہیں کہ صدر ٹرمپ نے کووڈ 19 کے بحران سے جس انداز سے نمٹنے کے لئے اقدامات کئے ہیں اور پھر ماضی میں پریس بریفنگ کے دوران انھوں نے جو تبصرے کیے ہیںِ، ان کی وجہ سے تنازعات نے جنم لیا ہے۔
ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی کے چیئرمین ٹوم پیریز اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بقول ان کے اس افراتفری سے آپ کے خیال میں ہمیں کون نکال سکتا ہے؟ انھوں نے الزام لگایا کہ موجودہ صدر کرونا وائرس کے بحران سے نمٹنے میں نااہل ثابت ہوئے ہیں۔
دوسری طرف ریپبلکن پارٹی کے عہدیدار اقتصادی میدان میں صدر ٹرمپ کے ریکارڈ کی جانب توجہ دلاتے ہیں، ریپبلکن نیشنل کمیٹی کی چیئرمین رونا میک ڈینیل کا کہنا ہے کہ کرونا کے موجودہ بحران تک صدر نے معاشی شعبے میں جو کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ووٹرز ان کے معترف ہیں اور بقول ان کے، وہ سمجھتے ہیں کہ اس بحران کے بعد معیشت کی بحالی کا کام بھی وہی انجام دے سکتے ہیں۔
اسی دوران بائیڈن کے لیے ایک چیلنج ان کے سینٹ کے دفتر کی ایک سابق ملازم کی جانب سے جنسی حملے کے الزام کی صورت میں سامنے آیا ہے جو مبینہ طور پر تقریبا 30 برس پہلے پیش آیا تھا۔ بائیڈن نے اس الزام کی تردید کی ہے۔
وائس آف امریکہ کی نامہ نگار ایلزبیتھ لی نے اپنی رپورٹ میں ان رکاوٹوں کی جانب بھی توجہ دلائی ہے جو دونوں امیدواروں کو کرونا کی عالمی وبا کے نتیجے میں سماجی فاصلے کی پابندی کی وجہ سے درپیش ہیں۔ اس صورت میں دونوں امیدوار اپنی انتخابی مہم فی الوقت الیکڑانک اور سوشل میڈیا کے سہارے ہی چلارہے ہیں۔
سیاسی واقعات پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس نے امریکہ کے سیاسی منظر نامے کو موجودہ انتخابی سال میں یقیناً پیچیدہ لیکن دلچسپ بنا دیا ہے۔