امریکہ میں ایک اندازے کے مطابق ستر لاکھ مسلمان بستے ہیں تاہم کئی امریکیوں کے لیے اسلام کا تعارف محض اسامہ بن لادن یا اسی قبیل کے دیگرانتہاپسندوں تک محدود ہے۔
مسلمانوں اور عام امریکیوں کے درمیان موجود اسی خلیج کودور کرنے اور باہمی عدم اعتماد کے سدباب کے لیے ایک امریکی یونیورسٹی کے پروفیسر اکبر احمد کی قیادت میں نوجوان ریسرچرز کی ایک ٹیم نے 75 امریکی شہروں کا سفر کیا ہے۔ ان کے اسی سفر کی روداد امریکہ میں سفر(جرنی ان ٹو امیریکا ) کے نام سے ایک دستاویزی فلم اور کتاب میں فلم اور قلم بند کی گئی ہے۔
منفی جذبات
"ہمیں مسلمان پسند نہیں، بس! وہ ہمارے حضرت عیسیٰ پہ یقین نہیں رکھتے۔" یہ الفاظ تھے ایک امریکی خاتون کے جو انہوں نے دستاویزی فلم بنانے والی ٹیم کے ایک سوال کے جواب میں کہے۔ ایک اور صاحب کا کہنا تھا کہ انہیں مسلمان اس لیے نہیں پسند کہ "ان کی کتاب انہیں قتل و غارت گری کی تعلیم دیتی ہے"۔
عام امریکیوں میں پائے جانے والے اسی قسم کے خیالات اور جذبات نے اکبر احمد اور ان کی ٹیم کو ایک ایسی دستاویزی فلم تخلیق کرنے کی تحریک دی جو ان دو موضوعات کا احاطہ کرسکے: اول، ایک مسلمان ہوتے ہوئے امریکہ میں رہنا کیا معنی رکھتا ہے، اور دوم، یہ کہ بذاتِ خود امریکی ہونے کے کیا معنی ہیں، خصوصاً گیارہ ستمبر 2001 کے واقعات کے پسِ منظر میں۔
دستاویزی فلم کے مقاصد بیان کرتے ہوئے اکبر احمد کہتے ہیں، "آپ کو یاد ہوگا گیارہ ستمبر سے پہلے مسلمان اس خیال سے امریکہ آتے تھے کہ ان کے نزدیک ایک مسلمان کے رہنے کے لیے یہ سب سے بہترین ملک تھا۔ تاہم 11/9 کے بعد انہیں اس ملک میں کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے"۔
سر پر اسکارف پہننے والی خدیجہ ریویرا بھی ان بہت سے مسلمانوں میں سے ایک ہیں جنہیں بدلتے ہوئے معاشرتی حالات نے متاثر کیا۔ ڈاکیومینٹری میں خدیجہ کہتی ہیں "کئی مقامی افراد مجھ پر آوازے کستے تھے۔ مجھے کچھ لوگوں نے یہ مشورہ بھی دیا کہ اگر میں اپنی حفاظت چاہتی ہوں تو مجھے اسکارف پہن کر لوگوں کے سامنے آنا چھوڑ دینا چاہیے۔ لیکن میں نے یہ تجویز یہ کہہ کر مسترد کردی کہ اس سے میری پسپائی کا تاثر ابھرے گا"۔
تاثر کی تبدیلی
اکبر احمد کہتے ہیں کی ان کی ڈاکیومینٹری سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ اکثر امریکیوں کی اسلام کے بارے میں معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ وہ کہتے ہیں "بہت سے امریکیوں کے خیال میں اسلام اور قرآن تشدد پر ابھارتے ہیں جبکہ کئی ایک یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام خواتین کا استحصال اور ان سے بدسلوکی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے"
خواتین سے سلوک کے حوالے سے اسلام کے بارے میں پائے جانے والے اس منفی تاثر کو دور کرنے کے لیے پروفیسر اکبر احمد کی ٹیم کی جانب سے کئی ایک کوششیں کی گئیں جن کے مناظردستاویزی فلم میں شامل ہیں۔ ایسے ہی ایک منظر میں اسکارف پہننے والی مسلم امریکی خواتین سے جب ان کی ملازمتوں کی نوعیت کے حوالے سے سوال کیا گیا تو ایک نے بتایا کہ وہ فارماسسٹ ہیں، ایک خاتون بچوں کے امراض کی ماہر ڈاکٹر تھیں، ایک نے کہا کہ وہ رئیل اسٹیٹ ایجنٹ ہیں جبکہ ایک اور خاتون نے بتایا کہ وہ مشہور امریکی فرم ایکسن موبائل سے بطور معاشی ماہر وابستہ ہیں۔
ڈاکیومینٹری بنانے والی ٹیم میں شامل ریسرچر ہیلی وولٹ یہ جاننا چاہتی تھیں کہ ایک چھوٹے جنوبی امریکی قصبے کے باشندے اپنے درمیان اچانک ایک برقع پوش خاتون کو پا کر کس طرح کا ردعمل دیں گے لہذا وہ خود ایک عربی انداز کا عبایا پہن کر قصبے کے ایک پرہجوم ریسٹورنٹ میں جا پہنچیں۔
انہوں نے اس تجربے کے بارے میں ڈاکیومینٹری ٹیم کو بتایا، "جب میں برقع پہنے ریسٹورنٹ میں داخل ہوئی تو پہلے تو وہاں موجود ہر ایک فرد کی نظریں مجھ پر جم گئیں۔ ایک لمحے کے لیے وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر حیرت سے مجھے تکتے رہے۔ لیکن پھر سب کچھ اس طرح معمول پر لوٹ آیا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو"۔
گفتگو و مکالمے کی ضرورت
تاہم وولٹ کو یقین ہے کہ امریکہ میں مقیم مسلمان امریکی معاشرے میں ضم ہو رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی مسلمانوں کو مقامی باشندوں کو اپنی گفتگو اور عمل کے ذریعے یہ باور کرانا ہوگا کہ اسلام اب امریکہ کا ایک جزو لاینفک ہے اور یہ کہ مسلمان امریکی ثقافت و معاشرے کی مضبوطی و بہتری میں مثبت کردارادا کررہے ہیں۔جیسا کہ اپنے ملک کے لیے جانیں قربان کرنا۔ امریکی مسلمانوں کی اس قربانی کو اجاگر کرنے کے لیے ڈاکیومینٹری میں آرلنگٹن کے قومی قبرستان میں موجود امریکی مسلمان مرد و خواتین فوجیوں کی قبروں کے مناظر بھی شامل کیے گئے ہیں۔
امریکی مسلمانوں کی زندگیوں کے مثبت اور متنوع پہلو اجاگر کرنے کی غرض سے پروفیسر اکبر احمد کی ٹیم نے اپنی ڈاکیومینٹری میں ڈیربورن (مشی گن) کے مقامی مسلمان اور سیڈار ریپڈ (آئیووا) میں واقع امریکہ کی قدیم ترین مسجد میں عبادت میں مشغول افراد کے انٹرویوز شامل کرنے کے ساتھ ساتھ نیویارک میں ہونے والی شیعہ مسلمانوں کی ایک مجلس کے مناظر بھی دکھائے ہیں۔
ڈاکیومینٹری میں منیر احمد جیسے مسلمانوں کی ترقی کا احوال بھی فلم بند کیا گیا ہے جو 1971 میں جب امریکہ آئے تو ان کی کل جمع پونجی محض 100 ڈالر تھی۔ آج منیر احمد اپنی ایک کمپنی کے مالک ہیں اور کئی مقامی امریکی ان کی شکاگو میں واقع فیکٹری میں ملازمت کرتے ہیں۔
منیر احمد کے الفاظ میں "ہر وہ شخص ، چاہے وہ فیکٹری ملازم ہو یا کسی مکینکل یا شپنگ کے ادارے میں ملازمت کرتا ہو، اگر وہ ضروری قابلیت کا حامل ہے تو یہاں وہ ترقی کرسکتا ہے"۔ منیر سمجھتے ہیں کہ امریکی آزادی کے ہیروز مسلمانوں کے امریکی معاشرے میں گھل مل جانے پر یقین رکھتے تھے۔
منیر کہتے ہیں، "یونیورسٹی آف ورجینیا میں نصب تھامس جیفرسن کے مجسمے کے ہاتھ میں موجود تختی پر لکھاہے ، 'مذہبی آزادی 1786: گاڈ، جیہواہ، براہما، اللہ'۔ اگر آپ تصور کریں تو یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ جیسے جیفرسن اپنے ہاتھ میں قرآن اٹھائے اللہ پہ یقین رکھنے والوں کو امریکہ میں خوش آمدید کہہ رہے ہوں"۔
ڈاکیومینٹری کا اختتام مجسمہء آزادی کے پس منظر میں اس پیغام پر ہوتا ہے کہ امریکہ میں بسنے والے مسلمانوں کی مقامی معاشرے میں بھرپور شمولیت کے لیے لازم ہے کہ امریکہ اپنے اجتماعیت کے فلسفے کو پھر سے بروئے کارلائے۔