|
پاکستان کی پارلیمنٹ سے حال ہی میں منظور ہونے والی 26ویں آئینی ترمیم میں ربا (سود) کے خاتمے سے متعلق شق بھی شامل ہے۔ اس آئینی ترمیم کے مطابق حکومت یکم جنوری 2028 تک سود کا مکمل طور پر خاتمہ کرے گی۔
اس بارے میں پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت نے سال 2022 میں ایک حکم بھی دیا تھا کہ آئندہ پانچ برسوں میں مکمل طور پر سود سے بغیر بینکاری نظام کی طرف جایا جائے۔ عدالتی فیصلے کے بعد اب آئینِ پاکستان میں بھی اس بات کو شامل کر لیا گیا ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بینکاری نظام بلا سو ہو سکتا ہے اور اس وقت بھی کچھ بینک یہ سہولت فراہم کر رہے ہیں۔ اگر اسٹیٹ بینک اس میں اپنا کردار زیادہ ادا کرے تو آئندہ چند برسوں کے دوران اس نظام کو مکمل طور پر اسلامی نظام کے تحت لانا مشکل نہیں ہے۔
پارلیمنٹ میں اتوار کو 26ویں آئینی ترمیم سے متعلق ہونے والے سینیٹ اجلاس کے دوران جمعیت علماء اسلام (ف) کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے سود کے خاتمے کی شق کو پیش کیا جسے منظور کر لیا گیا۔
وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے ربا سے متعلق ترمیم پر کہا کہ ہم نے پہلے ہی طے کرلیا تھا۔ شق کی وفاقی کابینہ نے منظوری دے دی ہے اور ہم مخالفت نہیں کریں گے۔
سینیٹ اجلاس میں سود کے خاتمے کی ترمیم کی مخالفت میں کوئی رکن پارلیمنٹ کھڑا نہیں ہوا، اس ترمیم کے حق میں 65 جب کہ مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں دیا گیا۔
ربا سے متعلق قانون بننے کے بعد جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو اس کا کریڈٹ دیا جا رہا ہے اور مفتی تقی عثمانی سمیت کئی علما ان کا شکریہ ادا کر رہے ہیں۔
البتہ پاکستان میں بینکاری نظام ایک طویل عرصے سے اس بحث کا شکار ہے کہ آیا صرف سودی بینکاری ہی ممکن ہے یا پھر اسلامی بینکنگ بھی ممکن ہے۔ اس وقت پاکستان میں چند بینک اسلامی بینکاری کی سہولت فراہم کر رہے ہیں۔
'بینکوں کو سود سے الگ ہونے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا ہو گا'
کیپٹل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبۂ اسلامی بینکاری کے پروفیسر نعیم اللہ خان کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان میں بلا سود بینکاری نظام کے لیے قوانین وضع نہیں ہیں اور اسٹیٹ بینک کی طرف سے کسی بھی بینک کو چلانے کے لیے جو لائسنس دیا جاتا ہے اس کی بنیادی شرائط میں یہ بات شامل ہے کہ وہ اسٹیٹ بینک کو چھ سے سات فی صد تک شرح سود ادا کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس صورت میں مختلف علما کے فتاویٰ موجود ہیں کہ جس حد تک بھی سود سے چھٹکارے کا نظام وضع کیا جاسکے وہ کرنا چاہیے۔
ان کے بقول اس وقت پاکستان میں مختلف بینک سود کے بغیر بینکاری الگ سے متعارف کرا رہے ہیں۔ پانچ سے چھ بینک مکمل طور پر اسلامی نظام پر جاچکے ہیں لیکن بیشتر بینک پرانے نظام کے تحت ہی چل رہے ہیں۔ کچھ بینکوں نے کنونشنل بینکنگ کے ساتھ ساتھ اسلامی بینکاری کی الگ ونڈو بھی بنا دی ہے۔
پروفیسر نعیم اللہ خان کے مطابق اسلامی بینکاری اور عام بینکاری میں اس وقت زیادہ فرق تو ٹرمنالوجی کا ہے جس میں اگر آپ کوئی گاڑی بینک کے ذریعے خریدتے ہیں تو عام بینک اسے لیز کہتا ہے جب کہ اسلامی بینکاری میں اسے اجارہ کہا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب بینکس کو لازمی طور پر کچھ نہ کچھ ایسا کرنا ہوگا کہ وہ سود سے الگ رہے۔
SEE ALSO: ایوان سے منظور 26ویں آئینی ترمیم میں کیا کیا ہے؟انہوں نے کہا کہ مختلف علما اس بات پر متفق ہیں کہ شرعی نظام پر اگر آجائیں تو بہت اچھی بات ہے۔ لیکن اگر ایسا نہ ہوسکے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس طرف جایا ہی نہ جائے۔
اس سوال پر کہ بین الاقوامی ڈیلز یا معاہدے اس سے متاثر ہوں گے یا نہیں؟ نعیم اللہ خان کا کہنا تھا کہ اس وقت ایران اور ملائیشیا میں اسلامی بینکاری کا نظام چل رہا ہے۔ جب اسٹیٹ بینک کی چھتری کے ذریعے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ساتھ معاملات طے کیے جائیں گے تو ان میں کچھ نہ کچھ مشکلات تو آئیں گی۔
لیکن ان کے بقول یہ بہت زیادہ نہیں ہوں گی اور جب آپ کا نظام مکمل طور پر ربا فری ہو کر اسلامی نظام کی طرف جائے گا تو بین الاقوامی اداروں کی طرف سے بھی کوئی حل نکل آئے گا۔
'مکمل ربا فری کرنے میں زیادہ مشکلات اور چیلنجز نہیں'
قائدِ اعظم یونیورسٹی کے استاد پروفیسر انور شاہ کہتے ہیں کہ کسی بھی قانون کا اطلاق ملکی سطح پر ہوتا ہے اور اس قانون کا تعلق بھی پاکستان کے اندر ہی ہے۔ بیرونِ ملک سے اس قسم کے معاملات میں عام طور پر بارگیننگ کی جاتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اس قانون کا اطلاق پاکستان کے اندر موجود اداروں اور مالیاتی اداروں پر ہونا ہے۔ لہٰذا اگر بین الاقوامی اداروں کے ساتھ ہمارے معاملات اسلامی قوانین کے مطابق نہ بھی ہوں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
پروفیسر انور شاہ کا کہنا تھا کہ مکمل طور پر ربا فری کرنے میں بہت زیادہ مشکلات اور چیلنجز نہیں ہیں۔ جب بینکس نے اس کا آغاز کیا تھا تو اس وقت یہ سوچ پائی جاتی تھی کہ آیا ایسا ممکن ہے یا نہیں۔ اب اس وقت ماڈل سب کے سامنے موجود ہیں۔ اس مقصد کے لیے اسٹیٹ بینک کو اپنے رولز تبدیل کرنا ہوں گے۔
ان کے بقول یہ رولز کسی بھی نئے قانون کے آنے پر بننا ہی ہوتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ابھی چار سال کا وقت موجود ہے اور اگر پاکستان کے تمام مالیاتی ادارے چاہیں تو اس ٹارگٹ کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔
SEE ALSO: آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ؛ کیا پاکستان میں منی بجٹ آ سکتا ہے؟ڈاکٹر انور شاہ نے کہا کہ اس وقت یہ سوال بھی سامنے آرہا ہے کہ جو بینکس اس وقت کام کر رہے ہیں کیا وہ مکمل اسلامی اصولوں کے مطابق کام کر رہے ہیں۔
اسلامی بینکاری نظام سے متعلق اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی شریعت کورٹ کے فیصلے کی حمایت کی تھی اور اسے تسلیم کیا تھا۔
اسلامی بینکاری کے پروفیسر نعیم اللہ خان کہتے ہیں کہ اس وقت یہ بحث بھی ہو رہی ہے کہ موجودہ اسلامی بینکاری نظام کیا مکمل طور پر شریعت کے عین مطابق ہے یا نہیں جس پر اسلامی بینکاری نظام کے حامیوں کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ اگر یہ مکمل شریعت کے مطابق نہیں بھی ہے تو بھی یہ نظام چلانا چاہیے کیونکہ یہ کسی حد تک اسلام کے قریب ہے۔
اس بارے میں پروفیسر انور شاہ کا کہنا تھا کہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ علمی بنیاد پر اختلاف تو ہو سکتا ہے لیکن عملی طور پر اگر دیکھا جائے تو ان میں سے اکثر اسلامی اصولوں کے مطابق ہی چل رہے ہیں۔ لہٰذا یہ عملی طور پر بالکل ممکن ہے۔
شریعت کورٹ کا سود سے متعلق فیصلہ
پاکستان کی شریعت کورٹ نے 19 سال بعد سود کے نظام کے خلاف دائر درخواستوں پر سال 2022 میں ایک فیصلہ دیا تھا جس میں عدالت نے وفاقی حکومت کو پانچ سال کے عرصے میں ملک میں سود کو مکمل ختم کرنے اور ربا فری بینکاری نظام نافذ کرنے کا حکم دیا تھا۔
وفاقی شرعی عدالت پاکستان کی ایک آئینی عدالت ہے جو ملکی قوانین کا اسلامی شریعت کے مطابق ہونے کا تعین کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔
سود کے خلاف درخواستیں جماعت اسلامی اور دیگر نے درخواستیں دائر کی تھیں۔
عدالت نے سود کے لیے سہولت کاری کرنے والے تمام قوانین اور شقوں کو غیر شرعی قرار دیا تھا۔
عدالت نے فیصلے میں 31 دسمبر 2027 تک تمام قوانین کو اسلامی اور بلا سود اصولوں میں ڈھالنے کا حکم بھی دیا تھا۔ شرعی عدالت نے انٹرسٹ ایکٹ 1839 اور یکم جون 2022 سے سود سے متعلق تمام شقوں کو غیر شرعی قرار دیا تھا۔
SEE ALSO: بلا سود نظام کے لیے نئی وزارت نہیں بن سکتی: وزیرِ خزانہشرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ معاشی نظام سے سود کا خاتمہ شرعی اور قانونی ذمہ داری ہے۔ ملک سے "ربا" کا ہر صورت میں خاتمہ کرنا ہو گا۔ ربا کا خاتمہ اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہے۔
شرعی عدالت کے جسٹس سید محمد انور نے فیصلے میں کہا تھا کہ بینکوں کا قرض کی رقم سے زیادہ وصول کرنا ربا کے زمرے میں آتا ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ دو دہائی گزرنے کے بعد بھی بلا سود معاشی نظام کے لیے حکومت کا وقت مانگنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
عدالت نے کہا تھا کہ بینکوں کا ہر قسم کا انٹرسٹ ربا ہی کہلاتا ہے۔ ربا مکمل طور پر اور ہر صورت میں غلط ہے۔
اس بارے میں اُس وقت کی وفاقی حکومت نے اپیل دائر کی تھی۔ تاہم کچھ عرصے بعد یہ اپیل واپس لے لی گئی تھی۔