پاکستان میں یوکرین کے سفیر نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ یوکرین کے معاملے پر اسلام آباد عالمی کوششوں میں شامل ہو اور کھل کر روسی جارحیت کی مذمت کرے۔سفیر نے یوکرین سے متعلق رواں ہفتے اقوامِ متحدہ میں پیش ہونے والی قرارداد کی بھی حمایت پر زور دیا ہے۔
وائس آف امریکہ کو دیے گئے انٹرویو میں یوکرین کے سفیر مارکیان چوچک کا کہنا تھا کہ عالمی برادری کے ایک قابلِ احترام اور ذمے دار رُکن کے طور پر پاکستان بھی یوکرین جنگ کے حل میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔
خیال رہے کہ "یوکرین میں ایک جامع، منصفانہ اور دیرپا امن کا قیام" کے عنوان سے قرارداد رواں ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کی جائے گی۔
روس یوکرین جنگ پر اسلام آباد کا مؤقف غیر جانب دار رہا ہے اور اس سے قبل پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں امریکہ کی طرف سے پیش کردہ قرارداد کے لیے ہونے والی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔
مذکورہ قرارداد میں عالمی برادری سے یوکرین میں جنگ چھیڑنے پر روس کی مذمت کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
مارکیان چوچُک نے پاکستان کو اس موقع پر غور کرنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ ہم پاکستان سے بھی اس عالمی امن اقدام میں شامل ہونےکا کہتے ہیں۔
یوکرینی سفیر نے امید ظاہر کی کہ دنیا بھر کے تمام ممالک اس امن قرارداد کی حمایت کریں گے۔
'پاکستان کا یوکرین جنگ پر مؤقف مبہم ہے'
یوکرینی سفیر کا کہنا تھا کہ پاکستان یوکرین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی حمایت کرتا ہے۔ لیکن یوکرین جنگ پر اسلام آباد کا موقف قدرے مبہم ہے۔
مارکیان چوچک نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ یوکرین کے خلاف روسی جارحیت کی مذمت کرے کیوں کہ یہ خطے کے بھی مفاد میں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان یوکرین کے خلاف روسی جارحیت کی مذمت کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ مغرب کی کٹھ پتلی بن جائے گا بلکہ یہ ایک خودمختار ریاست کی پوزیشن ہو سکتی ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس روس کی یوکرین میں جارحیت پر پاکستان نے کہا تھا کہ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے، لہذٰا تمام معاملات مذاکرات کی میز پر حل کیے جائیں۔ تاہم پاکستان نے روس کے حملے کی مذمت نہیں کی تھی۔
مارکیان چوچُک کہتے ہیں کہ "پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ روس کی مذمت کرنے کا مطلب مغرب کی حمایت کرنا ہے حالاں کہ میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔"
'غیر جانب دار رہنے سے جارح کو فائدہ ہوگا'
پاکستان کے غیر جانب دار رہنے کی پالیسی پر بات کرتے ہوئے یوکرینی سفیر کا کہنا تھا کہ جنگ کی صورت میں کسی کو بھی جارح اور جارحیت کا شکار ہونے والے کے ساتھ یکساں سلوک نہیں کرنا چاہیے۔
مارکیان چوچُک نے کہا کہ ایک ذمے دار ملک کو اس حقیقت سے آنکھیں بند نہیں کرنی چاہئیں کہ روس کے ساتھ تجارت کرتے ہوئے، وہ تیل کی رقم کے ذریعے جنگ میں مدد دے سکتا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے پیشِ نظر روس سے سستے داموں تیل کی خریداری کا خواہاں ہے۔ اس حوالے سے پاکستانی حکام کا کہنا ہے مارچ میں اس کی سپلائی شروع بھی ہو جائے گی۔ پاکستان روس سے گندم خریدنے والے ملکوں میں بھی شامل ہے۔
'روس سے تجارت جارح ملک کو مالی مدد فراہم کرنا ہے'
اسلام آباد اور ماسکو کے بڑھتے تعلقات پر یوکرینی سفیر نے کہا کہ پاکستان ایک آزاد ملک ہے اور اسے کسی بھی ملک سے اشیا اور اجناس خریدنے کا حق حاصل ہے۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ روس نے یوکرین پر حملہ کیا۔ لہذٰا اُن کے نزدیک جو ممالک روس کے ساتھ کاروبار کر رہے ہیں وہ ایک طرح سے جارحیت جاری رکھنے کے لیے اسے مالی امداد فراہم کر رہے ہیں۔"
پاکستان کی جانب سے روس سے سستا تیل خریدنے کے سوال پر یوکرین سفیر کا کہنا تھا کہ وہ اس معاملے پر حتمی تصویر واضح ہونے تک کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو کے حالیہ دورہ روس پر تبصرہ کرتے ہوئے یوکرینی سفیر کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ پاکستان کے وزیرِ خارجہ کو ہی کرنا ہے کہ وہ کس ملک کا دورہ کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کے ساتھ فوجی و تیکنیکی تعاون کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر مارکیان چوچک نے بتایا کہ بدقسمتی سے یوکرین اور پاکستان کے درمیان فوجی تعاون 24 فروری 2022 سے معطل ہے تاہم ان کا کہنا تھا وہ اسے جلد دوبارہ شروع کرنے کے لیے پرامید ہیں۔
اس سوال پر کہ کیا یوکرین پاکستان سےہتھیار حاصل کرنا چاہتا ہے؟ مارکیان چوچک نے کہا کہ یوکرین نے دنیا کے کئی ممالک سے اسلحہ اور گولہ بارود کی درخواست کررکھی ہے اور ان کا مقصد کسی پڑوسی ممالک پر حملہ کرنا نہیں بلکہ اپنی آزادی، خودمختاری اور سرحدوں کا دفاع کرنا ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ پاکستان سے بھی اس حوالے سے یوکرین کو کچھ مدد ملے گی۔
مارکیان چوچُک نے کہا کہ 30 سال پہلے جب پاکستان مشکل میں تھا تو یوکرین نے 300 سے زائد اہم جنگی ٹینک فراہم کیے اور اپنی ٹینک انڈسٹری قائم کرنے میں مدد دی۔
انہوں نے کہا کہ "اب یوکرین مشکل میں ہے اور ہمیں مدد کی ضرورت ہے۔"
اس سوال پر کہ یہ اطلاعات ہیں کہ پاکستان نے برطانیہ کی فضائی راہداری کا استعمال کرتے ہوئے یوکرین کو اسلحہ فراہم کیا ہے؟ مارکیان چوچک نے کہا کہ وہ اس امکان کو رد نہیں کر سکتے کہ کچھ گولہ بارود پاکستان سے تیسرے ممالک کے ذریعے یوکرین پہنچایا گیا ہو تاہم انہوں نے کہا کہ وہ اس کی تصدیق یا تردید نہیں کر سکتے۔
انہوں نے کہا کہ وہ یہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانی گولہ بارود کی براہ راست یوکرین کو ترسیل نہیں ہوئی ہے کیوں کہ یوکرین اور پاکستانی کمپنیوں کے درمیان ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔
اس سوال پر کہ کیا گزشتہ سال فروری میں جنگ کے آغاز کے بعد سے پاکستان کو یوکرین سے گندم کی فراہمی کی گئی ہے؟ جواب میں یوکرینی سفیر نے تصدیق کی کہ پاکستان کو گندم کی فراہمی کی گئی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ عالمی منڈیوں سے پاکستان کی درخواست کردہ 1.8 ملین ٹن گندم میں سے 1.2 ملین ٹن گندم یوکرین نے فراہم کی لیکن اس سال یہ اعداد و شمار کافی کم ہیں۔
روس کے ساتھ امن مذاکرات کیوں ناکام ہوئے؟
روس کے ساتھ تصفیے کے لیے مذاکرات کی ناکامی پر بات کرتے ہوئے یوکرینی سفیر کا کہنا تھا کہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں سے مذاکرات کرنا ناممکن ہے جنہوں نے مقامی آبادی کو مارنے، گھروں کو تباہ کرنے اور آپ کی زمینوں پر قبضہ کرنے کے لیے آپ کے ملک پر حملہ کیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کا وقت جلد یا بدیر آئے گا اور ہم اس پر کام کر رہے ہیں۔