ایمیزون میں آتش زدگی سے جنگلی حیات کے لیے خطرات بڑھ رہے ہیں

ایمزان برساتی جنگل میں پرندوں کی 1300 سے زیادہ اقسام موجود ہیں۔ (فائل فوٹو)

برازیل میں واقع دنیا کے سب سے بڑے برساتی جنگل 'ایمیزون' کے کئی حصے شدید آتش زدگی کی لپیٹ میں ہیں۔ یہ جنگل برازیل سمیت 8 ملکوں اور علاقوں میں پھیلا ہوا ہے۔

ایمیزون کا 40 فی صد حصہ برازیل میں ہے جو آتش زدگی سے زیادہ تر متاثر بھی ہوتا ہے۔ برازیل کی حکومت آگ بجھانے کی کوششیں کر رہی ہے اور فوج کے ہزاروں اہل کار آگ پر قابو پانے میں مصروف ہیں۔

دوسری جانب غیر ملکی امداد پر یورپی ملکوں کے عہدے داروں اور برازیل کے صدر کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ بھی دیکھنے میں آ رہا ہے۔

سی این این کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے اس سال ایمیزون میں بھڑکنے والی آگ 2013 کے بعد سے شدید ترین آتش زدگی ہے اور پچھلے سال کے مقابلے میں 85 فی صد زیادہ ہے۔

برازیل کے خلائی تحقیق کے مرکز نے بتایا ہے کہ 80 ہزار سے زیادہ ایسے مقامات کی نشاندہی ہوئی ہے جہاں آگ لگی ہوئی ہے۔

ایمزان جنگل میں 80 ہزار مقامات پر آگ کی نشاندہی ہوئی ہے۔

ایمیزون جنگل کیسا ہے؟

اس برساتی جنگل کا نام ایمیزون، اس میں سے گزرنے والے دنیا کے سب سے بڑے دریا ایمیزون پر رکھا گیا ہے۔ یہاں بہت زیادہ بارشیں ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ندی نالوں، جوہڑوں اور دلدلی علاقوں کی بہتات ہے۔

درختوں، سبزے کی کثرت، بڑے پیمانے پر بارشوں اور پانی کی موجودگی سے جنگل کی فضا زیادہ تر گیلی اور نمی سے بوجھل رہتی ہے اور آگ لگنے کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔

تاہم جولائی اور اگست دو ایسے مہینے ہیں جس کے دوران بارشیں نہیں ہوتیں اور جنگل میں کھڑا ہوا پانی بھی خشک پڑ جاتا ہے۔ چنانچہ آتش زدگی کے زیادہ تر واقعات اسی وقت ہوتے ہیں، جب خشک درختوں، پودوں اور خشک زمین کی وجہ سے ایک معمولی چنگاری بھی بڑے پیمانے کی آتش زدگی کا سبب بن جاتی ہے۔

خلائی تحقیق کے ادارے 'ناسا' کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ستمبر ایمیزون کے لیے خشک ترین مہینہ ہے۔ جنگل میں لگنے والی آگ عموماً ستمبر تک چلتی ہے۔ پھر شروع ہونے والی بارشیں آگ کو بجھا دیتی ہیں۔

ستمبر میں شروع ہونے والی بارشیں ایمزان میں لگی آگ بجھا دیتی ہیں۔

ایمیزون جنگل میں آگ کیسے لگتی ہے؟

خشک اور گرم موسم میں ہوائیں چلنے سے جب خشک درختوں کی شاخیں آپس میں ٹکراتی ہیں تو بعض اوقات رگڑ سے اتنی حرارت پیدا ہوتی ہے کہ لکڑی آگ پکڑ لیتی ہے اور پھر آس پاس کے خشک درخت، پودے اور جڑی بوٹیاں اس کے لیے تیل کا کام کرتی ہیں۔

تاہم کئی تحقیقاتی رپورٹوں سے پتا چلا ہے کہ صرف آب و ہوا کی تبدیلی اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہی ایمیزون کی آگ کا سبب نہیں ہے بلکہ اس میں سب سے زیادہ حصہ حضرت انسان کا ہے۔

ایمیزون برساتی جنگل پر نظر رکھنے والے ایک گروپ ایمیزون واچ کی ڈائریکٹر کرسٹین پیریر کہتی ہیں کہ بالعموم ہوتا یہ ہے کہ فارم بنانے اور کاشت کاری کے لیے زمین حاصل کرنے کی غرض سے لوگ خشک موسم میں اپنی پسند کی جگہوں پر جنگل کو آگ لگا دیتے ہیں۔ بعد میں ان زمینوں پر شجر کاری کی بجائے زرعی فارم بنا لیے جاتے ہیں۔

فارم بنانے کے لیے جنگل کے کنارے آگ لگا کر زمین حاصل کر لی جاتی ہے۔

لیکن اس بار برازیل کے صدر جائیر بولسونارو نے آتش زدگی کا الزام این جی اوز پر لگاتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے اپنے فنڈز میں کٹوتیوں کا بدلہ لینے کے لیے انتقاماً جنگل میں آگ لگا دی ہے۔

تاہم تازہ ترین رپورٹس کے مطابق ایمیزون میں بھڑکنے والی آگ ٹھنڈی پڑنا شروع ہو گئی ہے اور آئندہ چند ہفتوں میں اس پر مکمل قابو پانے کی توقع کی جا رہی ہے۔

ایمزان برساتی جنگل 22 لاکھ مربع میل پر پھیلا ہوا ہے۔

ایمیزون جنگل کتنا بڑا ہے؟

دنیا کے سب سے بڑے برساتی جنگل ایمیزون کا رقبہ لگ بھگ 22 لاکھ مربع میل ہے، یعنی پاکستان کے کل رقبے سے چھ گنا سے بھی زیادہ ہے۔

ایمیزون میں صرف درخت، ہزاروں اقسام کی نباتات اور پانی کی ہی فراوانی نہیں ہے بلکہ وہاں لاکھوں اقسام کے چرند، پرند اور حشرات الارض بھی پائے جاتے ہیں۔ جنگل میں آتش زدگی سے صرف نباتات کو ہی نہیں بلکہ جنگلی حیات کو بھی نقصان پہنچاتا ہے کیونکہ ان میں بہت سے تو ایسے ہیں جو اپنی جانیں بچانے کے لیے وہاں سے بھاگ بھی نہیں پاتے۔

ایمیزون کی جنگلی حیات کیسی ہے؟

ایمیزون کی جنگلی حیات پر تحقیق کرنے والے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کرہ ارض پر پائے جانے والی حیات کی کل اقسام کا لگ بھگ 30 فی صد ایمیزون میں موجود ہے۔ ورلڈ وائلڈ لائف کی ایک رپورٹ کے مطابق ایمیزون میں 40 ہزار سے زیادہ اقسام کے درخت اور پودے پائے جاتے ہیں۔

ایمزان میں کئی اقسام کے بندر موجود ہیں۔

ایمیزون میں اب تک ایک لاکھ سے زیادہ اقسام کی جنگلی حیات کی شناخت کی جا چکی ہے۔ جن میں شیروں سمیت 427 اقسام کے دودھ پلانے والے جانور، عقابوں سمیت 1300 سے زیادہ اقسام کے پرندے اور سانپوں سمیت 378 سے زیادہ اقسام کے رینگنے والے جانور شامل ہیں۔

اس کے علاوہ مینڈک اور مگرمچھوں سمیت 400 سے زیادہ ایسے جانور جو خشکی اور پانی دونوں جگہ یکساں طور پر رہتے ہیں، تین ہزار سے زیادہ اقسام کی مچھلیاں اور دیگر آبی جانور ایمیزون کے جنگلات میں موجود ہیں۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ایمیزون میں ایسے کیڑے مکوڑوں اور حشرات الارض کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے جن کی ریڑھ کی ہڈی نہیں ہوتی۔ ان میں اب کئی اقسام کی جنگلی حیات کے مٹنے کا خطرہ بڑھ رہا ہے، جس کی وجہ آتش زدگی کے بڑھتے ہوئے واقعات سے کہیں زیادہ آب و ہوا کی تبدیلیاں ہیں۔

چونٹیاں ایک پتا لے جا رہی ہیں جس پر لکھا ہے جنگل کا مستقبل۔ ایمزان میں حشرات الارض کی ایک لاکھ سے زیادہ اقسام ہیں۔

ایمیزون کا مستقبل کیا ہے؟

موسمیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایمیزون کے برساتی جنگل میں بارشوں کا اوسط مسلسل گر رہا ہے۔ سن 2000 کے مقابلے میں وہاں پچھلے سال تقریباً 70 فی صد کم بارشیں ہوئیں۔

عالمی ادارے ورلڈ وائلڈ لائف نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں مسلسل اضافے کے سبب سن 2030 تک ایمیزون کے 27 فی صد علاقے سے جنگل ختم ہو جائیں گے۔