القاعدہ بدستور امریکہ کے لیے خطرہ

القاعدہ بدستور امریکہ کے لیے خطرہ

امریکہ کے انٹیلی جینس کے اعلیٰ عہدے داروں نے کہا ہے القاعدہ کے دہشت گردی کے نیٹ ورک سے امریکہ کو مسلسل خطرہ ہے کیوں کہ اس کے پیرو کاروں نے اپنے طریقے تبدیل کر لیے ہیں اور ان کا پتہ چلنا مشکل ہو گیا ہے۔

نیشنل انٹیلی جینس کے ڈائریکٹر ڈینس بلیئر Dennis Blair نے بدھ کے روز ایوان ِ نمائندگان کی Permanent Select Committee on Intelligence کو بتایا کہ القاعدہ سے امریکہ کو اب بھی شدید خطرہ ہے۔ انھوں نے کہا’’ہم گذشتہ کئی برسوں سے یہ کہتے رہے ہیں کہ القاعدہ اس سے وابستہ تنظیمیں اور اس کے پیغام سے متاثر ہونے والے دہشت گرد امریکہ پر ضرب لگانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ اور گذشتہ سال میں ہمیں کچھ ایسے نام ملے ہیں جن سے پتہ چلا ہے کہ ہمارے اندیشے غلط نہیں ہیں۔‘‘

بلیئر نے مثال کے طور پر گذشتہ سال کے واقعات میں سے نجیب اللہ زازی کا نام دیا۔ اس شخص پر جو افغانستان میں پیدا ہوا تھا، امریکہ میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والوں ہتھیاروں کے استعمال کی سازش کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ انھوں نے نائجیریا کے باشندے عمر فاروق عبدالمطلب کا نام دیا جس پر امریکہ آنے والے ایک ہوائی جہاز کو بم سے اڑانے کی کوشش کا الزام عائد کیا گیا ہے ۔

بلیئر نے ایک امریکی شہری میجر ندال حسن کا بھی حوالہ دیا جن پر الزام ہے کہ انھوں نے ریاست ٹیکسس میں Fort Hood کے مقام پر13 افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ ان کا نام ملک کے اندر انتہا پسند ی کا رجحان رکھنے والے افراد کی مثال کے طور پر دیا گیا۔ بلیئر نے انتباہ کیا کہ متشدد انتہا پسندی کا خطرہ مسلسل بڑھ رہا ہے ۔ انھوں نے کہا’’ہم نے القاعدہ کے لیے کئی ٹیموں پر مشتمل ، پیچیدہ کارروائیاں کرنا بہت مشکل کر دیا ہے ۔ لیکن جیسا کہ ہم نے گذشتہ سال کے کچھ کامیاب او ر کچھ ناکام حملوں میں دیکھا، ایسے انفرادی دہشت گردوں، یا چھوٹے چھوٹے گروپوں کی شناخت کرنا، جن کے بارے میں تفصیلی معلومات دستیاب نہیں ہیں اور جو حملے میں سادہ طریقے استعمال کرتے ہیں، کہیں زیادہ مشکل کام ہے ۔‘‘

ایسی ہی ایک سماعت منگل کے روز سینیٹ کی سیلیکٹ انٹیلی جینس کمیٹی نے منعقد کی ۔ اس سماعت میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر لیون پانیٹا Leon Panetta نے کہا کہ بات یہ نہیں ہے کہ امریکہ کو 11 ستمبر 2001 جیسے دہشت گردی کے حملے کا خطرہ درپیش ہے بلکہ اس سے بھی بڑا خطرہ یہ ہے کہ القاعدہ کی تنظیم اپنے طریقوں میں اس قسم کی تبدیلیاں لا رہی ہے جن کا پتہ چلانا اکثر بہت مشکل ہوتا ہے۔

پانیٹا اور انٹیلی جینس کے دوسرے عہدے داروں نے انتباہ کیا ہے کہ القاعدہ نے اب امریکیوں اور ایسے لوگوں کو بھرتی کرنے کی کوششیں اور تیز کر دی ہیں جن کے ریکارڈ میں دہشت گردی کے کوئی واقعات موجود نہیں ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ انٹرنیٹ پر دہشت گردوں کی sites کے ذریعے لوگوں میں انتہا پسندی کے جذبات پیدا ہونے کا خطرہ بڑھ رہا ہے ۔ڈائریکٹر بلیئر نے انٹرنیٹ پر مخاصمانہ سرگرمیوں کو ایک اور بڑا خطرہ قرار دیا۔ لیکن انھوں نے کہا کہ گذشتہ سال کے بعد سے عالمی اقتصادی نظام کی تباہی کا خطرہ خاصا کم ہو گیا ہے ۔

منگل کے روز سینیٹ کی سماعت میں ریپبلیکن ارکان نے کرسمس کے روز مسافر بردار ہوائی جہاز کو تباہ کرنے کی ناکام کوشش کے بارے میں اوباما انتظامیہ کے اقدامات پر سخت تنقیدکی۔ انھوں نے کہا کہ جیسے ہی ملزم عبدالمطلب کو وکیل فراہم کیا گیا اس نے بات کرنا بند کردی ۔ نیشنل انٹیلی جینس کے ڈائریکٹر بلیئر نے کہا کہ عہدے داروں کو اچھی انٹیلی جینس حاصل کرنے اور ملزم پر مقدمہ چلانے کے مقاصد کے درمیان توازن قائم رکھنا پڑتا ہے، اور اس کیس میں، ان کی کارکردگی اچھی رہی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں اچھی انٹیلی جینس ملی ہے اور مزید معلومات حاصل ہو رہی ہیں۔

اوباما انتظامیہ کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ عبدالمطلب ایف بی آئی کے ساتھ تعاون کر رہا ہے اور مفید معلومات فراہم کر رہا ہے ۔فیڈرل گرانڈ جیوری نے 23سالہ ملزم پر چھ الزامات کی فرد جُرم عائد کر دی ہے۔ ان میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار استعمال کرنے کی کوشش کرنے اور قتل کی کوشش کرنے کے الزامات شامل ہیں۔اس کیس سے امریکی کانگریس میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ دہشت گردی کے ملزموں کو سویلین تحویل میں رکھا جانا چاہیئے یا انہیں فوج کی تحویل میں دے دینا چاہیئے اور ان پر سویلین عدالتوں میں مقدمہ چلایا جانا چاہیئے یا گوانتنامو بے، کیوبا کے فوجی ٹریبیونلز میں۔