طالبان اور القاعدہ کے مبہم مقاصد کا تجزیہ

طالبان اور القاعدہ کے مبہم مقاصد کا تجزیہ

افغانستان اور پاکستان میں سرگرم عسکریت پسند جہادی گروپوں میں بعض باتیں نظریاتی طور پر مشترک ہیں لیکن ضروری نہیں کہ ان کے مقاصد بھی ایک جیسے ہوں۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ افغان طالبان کم از کم ظاہری طور پر اپنے اور القاعدہ کے درمیان کچھ فاصلہ پیدا کر رہےہیں۔ شاید ان کی نظریں مستقبل میں مذاکرات پر ہیں۔ لیکن پاکستانی طالبان نے اس سے مختلف راہ اختیار کی ہے۔

ایک زمانہ تھا کہ طالبان اور القاعدہ کو ایک ہی تنظیم سمجھا جاتا تھا۔ خاص طور سے نائن الیون کے حملوں کے بعد بہت سے لوگوں کی نظر میں دونوں میں کوئی فرق نہیں تھا۔لیکن اب ایک طرف پاکستانی طالبان ہیں اور دوسری طرف افغان طالبان اور ان دونوں کے مقاصد بھی مختلف ہیں۔القاعدہ کی تنظیم ایک زمانے میں افغانستان میں طالبان کی حکومت کی مہمان تھی۔ اب القاعدہ نے پاکستان کے قبائلی علاقے میں پناہ لے رکھی ہے۔

لیکن افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کا القاعدہ سے کتنا قریبی رابطہ ہے اس بارے میں اختلافِ رائے پایا جاتا ہے۔انسداد دہشت گردی کے ایک امریکی عہدے دار نے کہا کہ ان گروپوں کے درمیان اب بھی قریبی تعاون موجود ہے اور القاعدہ ، افغانستان اور پاکستان میں طالبان کی سرگرمیوں کی حمایت کرتی ہے۔ بروکنگ انسٹیٹیوٹ کے Bruce Riedel کہتے ہیں کہ اگرچہ ان گروپوں کے درمیان کچھ اختلافات ہیں لیکن یہ ایک دوسرے کے زیادہ قریب آ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’افغان طالبان، پاکستانی طالبان اور ان سے وابستہ لشکرِ طیبہ جیسے گروپ اب ایک سنڈیکیٹ کی طرح کام کرتے ہیں۔ وہ کسی فرد کی کمان کے تحت نہیں ہیں۔ ان کے ایجنڈے بھی مختلف ہیں۔ لیکن جب کوئی کارروائی کرنے کا وقت آتا ہے تو ان کے درمیان بہت قریبی رابطہ اور تعاون ہوتا ہے۔‘‘

لیکن بعض دوسرے تجزیہ کاروں کی رائے اس سے کسی قدر مختلف ہے۔ اقوامِ متحدہ کی القاعدہ اور طالبان کی مانیٹرنگ کرنے والی ٹیم کے سربراہ Richard Barrett کہتے ہیں کہ اگرچہ پاکستانی طالبان اور القاعدہ کے درمیان تعلق اب بھی خاصا مضبوط ہے لیکن افغان طالبان اور القاعدہ کے تعلقات کمزور ہو گئے ہیں۔ انھوں نے کہا’’میرا خیال ہے کہ کچھ عرصے سے افغان طالبان اور القاعدہ کے درمیان تعلقات مضبوط نہیں رہے۔ اب افغانستان میں القاعدہ کے لوگ کم ہی نظر آتے ہیں۔ اب ان کا مستقبل پاکستانی طالبان سے وابستہ ہو گیا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ مُلا برادر اور افغان طالبان کی قیادت یہ سمجھنے لگی ہے کہ القاعدہ سے قریبی تعلق ان کے مفاد میں نہیں ہے ‘‘

مُلا برادر افغان طالبان کے اعلیٰ ترین آپریشنل کمانڈر تھے۔ انھیں حال ہی میں کراچی میں امریکی اور پاکستانی فورسز کے مشترکہ چھاپے میں پکڑا گیا ہے ۔ Barrett اور ان کے ہم خیال تجزیہ کار کہتے ہیں کہ افغان طالبان مستقبل کے افغانستان میں اپنے لیے کوئی سیاسی رول حاصل کرنا چاہتے ہیں اگرچہ وہ اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ انہیں اس مرحلے میں مذاکرات میں کوئی دلچسپی ہے۔ القاعدہ کے ساتھ تعلقات سے ان امکانات کو نقصان پہنچے گا۔ بعض رپورٹوں سے اس طرف اشارہ ملتا ہے کہ شاید مُلا برادر کسی قسم کی مصالحت شروع کرنے کے حق میں تھے۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ افغان طالبان کے مقاصد کی نوعیت مقامی ہے اور اس کے جنگجو بھی مقامی لوگ ہیں جب کہ القاعدہ کے مقاصد عالمگیر ہیں اور اس کے جنگجوؤں کا تعلق دنیا کے بہت سے ملکوں سے ہے۔

نیوامریکن فاؤنڈیشن کے Brian Fishman کہتے ہیں کہ افغان طالبان خود کو ایک قوم پرست گروپ کی شکل میں پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ القاعدہ سے وابستہ ویب سائٹس پر ان کی اس کوشش پر تنقید کی گئی ہے۔

افغان طالبان کی یہ کوشش بھی ہے کہ حکومت پاکستان کو یہ یقین دلایا جائے کہ پاکستان کے اندر القاعدہ اور پاکستانی طالبان جو حملے کر رہے ہیں ان میں وہ ملوث نہیں ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ اس قسم کے چھاپے نہ مارے جائیں جیسے مُلا برادر کو پکڑنے کے لیے مار ے گئے ہیں۔

دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششیں پاکستانی طالبان کےخلاف مرکوز رہی ہیں جن کا القاعدہ سے زیادہ قریبی رابطہ ہے۔ مغربی ملکوں کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ اب تک افغان طالبان کوجن کا ہیڈ کواٹر کوئٹہ میں ہے، نہیں چھیڑا گیا تھا۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ انہیں کسی قدر حیرت ہے کہ آخر وہ کیا حالات تھے جن کی بنا پر پاکستان نے کراچی میں چھاپہ مارا جس میں ملا برادر پکڑے گئے۔ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ اس کارروائی سے افغان طالبان کے خلاف پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی کی نشاندہی ہوتی ہے ۔