بھارتی حکومت کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک میں پیش آنے والے جنسی زیادتی کے 80 فی صد سے زائد واقعات میں متاثرہ خاتون کے جاننے والے اور رشتے دار ملوث ہوتے ہیں۔
بھارت میں جرائم کے اعداد و شمار مرتب کرنے والے ادارے 'نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو' کی سالانہ رپورٹ کے مطابق 2014ء میں بھارت میں ہونے والی جنسی زیادتیوں کی 86 فی صد وارداتوں میں متاثرہ خاتون کے رشتے دار، پڑوسی، دفاتر میں ساتھ کام کرنے والے یا باسز ملوث تھے۔
جمعے کو جاری کی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2014ء کے دوران ملک میں خواتین پر تشدد، زیادتی، اغوا اور شوہروں کے مظالم کا نشانہ بنائے جانے کی تین لاکھ 37 ہزار سے زائد شکایتیں درج کرائی گئیں جو 2013ء کے مقابلے میں 9 فی صد زیادہ ہیں۔
سرکاری ریکارڈ کے مطابق گزشتہ سال بھارت میں زنا بالجبر کی 33707 شکایتیں درج کرائی گئیں۔ جنسی زیادتی کے سب سےزیادہ واقعات دارالحکومت نئی دہلی میں پیش آئے جہاں 1813 واقعات رپورٹ ہوئے۔ ممبئی 607 واقعات کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا۔
رپورٹ کے مطابق سرکاری ریکارڈ سے پتا چلا ہے کہ جنسی زیادتی کے 86 فی صد واقعات میں قریبی رشتے دار، پڑوسی، دوست، ساتھ کام کرنے والے اور آجر ملوث تھے۔
حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی 14102 (لگ بھگ 38 فی صد) خواتین ایسی تھیں جن کی عمر واردات کے وقت 18 سال سے بھی کم تھی۔
نئی دہلی میں دسمبر 2012ء میں ایک چلتی بس میں میڈیکل کی ایک طالبہ کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی ہولناک واردات کے بعد ملک بھر میں خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے حق میں اور ملزمان کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لیے ایک بڑی عوامی احتجاجی مہم کا آغاز ہوا تھا۔
عوامی حلقوں کے احتجاج کے بعد بھارتی حکومت نے خواتین کے خلاف جرائم میں ملوث ملزمان کے خلاف سخت سزائیں متعارف کرائی تھیں جن میں بار بار جنسی زیادتی کے مرتکب افراد کے لیے موت کی سزا، خواتین کا پیچھا کرنے کو قابلِ سزا جرم قرار دینے، تیزاب پھینکنے اور خواتین کی اسمگلنگ کے ملزمان کے لیے کڑی سزاؤں کا نفاذ جیسے اقدامات شامل تھے۔
حکومت کے ان اقدامات اور ذرائع ابلاغ اور مختلف تنظیموں کی جانب سے خواتین کے خلاف جرائم سے متعلق عوام میں آگاہی پیدا کرنے کی مسلسل کوششوں کے نتیجے میں اس نوعیت کی وارداتوں کو سامنے لانے اور پولیس کو شکایات درج کرانے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔
لیکن حقوقِ نسواں کےلیے سرگرم اداروں اور تنظیموں کا موقف ہے کہ حکومت کی رپورٹ میں بیان کیے گئے اعداد و شماراب بھی برسرِ زمین صورتِ حال کی درست عکاسی نہیں کرتے۔
ان اداروں کا موقف ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود اب بھی بھارت میں خواتین کی ایسی بڑی تعداد موجود ہے جو خاندان کے دباؤ یا برادری کے خوف سے اپنے ساتھ ہونے والے مظالم اور زیادتیوں پر آواز نہیں اٹھاتی۔