پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کو درپیش مختلف مسائل اور ان کی رضاکارانہ وطن واپسی سے متعلق قومی نقطہ نظر جاننے کے لیے اسلام آباد میں ایک مشاورتی اجلاس ہوا جس میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور رہنماؤں نے شرکت کی۔
اجلاس کی میزبانی ریاستوں اور سرحدی امور کی وفاقی وزارت نے کی جس کے وزیر عبدالقادر بلوچ کا کہنا ہے کہ پاکستان افغان پناہ گزینوں کی باعزت اور رضاکارانہ وطن واپسی کے عزم پر قائم ہے اور ملک میں مقیم افغان شہریوں کی شکایات کے ازالے کے لیے تمام ممکنہ اقدام کیے جائیں گے۔
صحافیوں سے گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ ایسی شکایات سامنے آئی تھیں کہ وطن واپس جانے والے پناہ گزین پاکستان کے بارے میں اچھا تاثر لے کر نہیں جا رہے جو کہ دہائیوں تک افغانوں کی میزبانی کرنے والے ملک کے لیے اچھی بات نہیں ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
"ہم نہیں چاہتے کوئی غلط تاثر کے ساتھ جائے ہمارے ملک کے بارے میں کوئی غلط بات کرے یا یہ کہ ان (پناہ گزینوں) کے ساتھ کوئی زیادتی ہوئی، تو اس بارے میں تجاویز لینے کے لیے ہم نے سیاسی جماعتوں کے سربراہان کا یہ اجلاس بلایا تھا۔۔۔ہم نے دہائیوں ان کی میزبانی کی ہے اور ہم اپنی ان کوششوں کو ضائع نہیں کرنا چاہتے۔"
ملک میں سرکاری اندازوں کے مطابق 15 لاکھ کے لگ بھگ افغان پناہ گزین باقاعدہ اندراج کے ساتھ جب کہ اتنی ہی تعداد میں بغیر کسی قانونی دستاویز کے پاکستان کے مختلف علاقوں میں رہ رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین "یو این ایچ سی آر" کے مطابق رواں سال ستمبر کے پہلے ہفتے تک ایک لاکھ 11 ہزار افغان پناہ گزین اپنے وطن واپس جا چکے ہیں اور جولائی سے ان کی وطن واپسی میں تیزی دیکھی گئی تھی۔
گو کہ حکومت اندراج شدہ افغان پناہ گزینوں کے پاکستان میں قیام کی مدت میں آئندہ سال 31 مارچ تک توسیع کرچکی ہے لیکن حالیہ مہینوں میں خاص طور پر خیبر پختونخواہ میں افغانوں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے مبینہ طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعات کے پیش نظر بہت سے لوگ اپنے وطن واپس جانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
بدھ کو ہونے والے اجلاس میں شریک خیبر پختونخواہ حکومت کے صوبائی مشیر اطلاعات مشتاق غنی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پناہ گزینوں کی شکایات کے ازالے کے لیے صوبائی سطح پر دس رکنی کمیٹی قائم کی جا چکی ہے۔
"اندراج شدہ افغانوں سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں۔ وہ جب تک چاہیں رہیں جو غیر اندراج شدہ ہیں ہم یہ کہتے ہیں کہ ان کا پتا تو چلے کہ یہ واقعی افغان ہیں یا کوئی اور لوگ ہمارے اردگرد رہ رہے ہیں۔"
ملک کے بعض حلقوں کی طرف سے اس بنا پر افغان پناہ گزینوں کو وطن واپس کے مطالبات میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ خکام یہ الزام لگا چکے ہیں کہ متعدد واقعات میں مشتبہ دہشت گردوں نے افغان بستیوں میں پناہ حاصل کی۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف جرائم میں غیر اندراج شدہ پناہ گزینوں کے تعلق کی خبریں بھی سامنے آچکی ہیں۔
تاہم وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کو غیر اندراج شدہ افغانوں کی رجسٹریشن کے بارے میں تجاویز پیش کی جائیں گی جب کہ اس سلسلے میں متعلقہ وزارتوں سے رابطہ کیا جارہا ہے کہ ایسے افغانوں کو جن کی ملک میں جائیدادیں اور کاروبار ہیں، انہیں اپنے اثاثوں کی فروخت میں کسی طرح کے نقصان کا سامنا نہ کرنا پڑے۔