بھارت: تبریز انصاری قتل کیس میں تمام مجرموں کو 10 سال قید

تبریز انصاری کی ہجوم کے تشدد کے نتیجے میں ہلاکت پر مسلم تنظٰموں نے احتجاج بھی کیا تھا۔ (فائل فوٹو)

بھارت کی مشرقی ریاست جھارکھنڈ کی ایک عدالت نے تبریز انصاری قتل معاملے میں تمام 10 مجرموں کو دس، دس سال کی قید کی سزا سنائی ہے۔ 18 جون 2019 کو مشتعل ہجوم کے تشدد کے نتیجے میں 24 سالہ تبریز انصاری ہلاک ہو گئے تھے۔ مجرموں پر 15 ہزار روپے کا جرمانہ بھی کیا گیا ہے۔

وکیلِ استغاثہ الطاف حسین کے مطابق جھارکھنڈ کی سرائے کیلا کی عدالت نے 13 ملزموں میں سے 10 کو مجرم قرار دیا تھا۔ دو ملزموں کو سماعت کے دوران بری کر دیا گیا تھا جب کہ ایک کی موت ہو گئی تھی۔

سرکاری وکیل اشوک کمار رائے کے مطابق کلیدی ملزم پرکاش منڈل عرف پپو سمیت 10 ملزموں کو تعزیرات ہند کی دفعہ 304 یعنی بے ارادہ قتل کی دفعہ کے تحت سزا سنائی گئی ہے۔ حالاں کہ ان کے خلاف دفعہ 302 یعنی قتل کی دفعہ کے تحت الزامات طے کیے گئے تھے۔

تبریز انصاری کی بیوہ شائستہ پروین نے مجرموں کو سزا سنائے جانے کا خیرمقدم کیا تاہم یہ بھی کہا کہ وہ قتل کی دفعہ کے تحت سزا سنائے جانے کے لیے ہائی کورٹ میں اپیل کریں گی۔ ان کے ساتھ حقیقی انصاف اسی وقت ہوگا جب مجرموں کو قتل کی دفعہ کے تحت سزا ملے گی۔

قبل ازیں عدالت نے 27 جون کو تمام ملزمان کو مجرم قرار دیتے ہوئے پانچ جولائی کو سزا سنانے کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت سرکاری وکیل اشوک کمار رائے نے کہا تھا کہ ہم مجرموں کی عمر قید یا زیادہ سے زیادہ سزا کی اپیل کریں گے۔


ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج امت شیکھر کے فیصلے سنائے جانے کے فوراً بعد تمام مجرموں بھیم سنگھ منڈا، کمل مہتو، سمنت مہتو، مدن نائک، اتول مہالی، سونامو پردھان، وکرم منڈل، چامو نائک، پریم چند مہالی اور مہیش مہالی کو حراست میں لے لیا گیا۔

تبریز انصاری کو 2019 میں 17 اور 18 جون کی درمیانی رات میں دھتکی ڈیہہ گاؤں کے ایک مکان میں چوری کرنے کے الزام میں پکڑا گیا تھا۔ ہجوم نے ان کو ایک پول سے باندھ کر تشدد کا نشانہ بنایا اور ان سے جبراً جے شری رام اور جے ہنومان کے نعرے لگوائے گئے تھے۔

مقامی باشندوں نے 18 جون کو انہیں مقامی پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔ انہیں اسی روز جیل بھیج دیا گیا جہاں ان کی طبیعت بگڑ گئی تھی۔ انہیں اسپتال میں داخل کیا گیا جہاں علاج کے دوران 22 جون کی صبح کو ان کی موت ہو گئی تھی۔

تبریز انصاری کی اہلیہ شائستہ پروین نے پرکاش منڈل اور دیگر نامعلوم افراد کے خلاف رپورٹ درج کرائی تھی۔ پولیس نے جانچ کے دوران 12 لوگوں کے نام ملزموں میں شامل کیے تھے۔

رپورٹس کے مطابق اسپتال کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد جس میں تبریز کی موت کی وجہ دل کا دورہ بتایا گیا تھا، پولیس نے تمام ملزموں پر سے قتل کی دفعہ ہٹا دی تھی۔ اس نے عدالت سے اپیل کی کہ وہ اس معاملے کی دفعہ 302 کے بجائے دفعہ 304 کے تحت سماعت کرے۔

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل زیڈ کے فیضان ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ بعض اوقات پولیس حکومت کے اشارے پر از خود کیس کو کمزور کرتی ہے اور ملزموں کے خلاف ہلکی دفعات لگاتی ہے۔ اسی کے ساتھ عدالت کو بھی یہ اختیار ہے کہ وہ کیس کے پیش نظر دفعہ تبدیل کر دے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے اگر بے ارادہ قتل کی دفعہ کے تحت فیصلہ سنایا ہے تب بھی اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے کیوں کہ بہر حال عدالت نوٹس لے رہی ہے، وہ ایسے معاملات کو بالکل ہی نظرانداز نہیں کر رہی ہے۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ قتل کے ایک معاملے کو بے ارادہ قتل کے معاملے میں کیسے بدلا گیا۔ اس کو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا سرکاری وکیل کی جانب سے کوئی خامی تھی یا پولیس نے اپنی فرد جرم میں دفعہ ہلکی کی۔

انسانی حقوق کے بعض کارکنوں کی جانب سے پولیس رپورٹ میں دفعات کو ہلکی کیے جانے کے خلاف آواز بلند کی جاتی رہی ہے۔ ان کے مطابق اگر ہجوم کے تشدد میں کوئی شخص بری طرح زخمی ہوا ہے اور بعد میں اس کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوتی ہے تو سوال یہ ہے کہ دل کا دورہ کیوں پڑا۔

قانونی ماہرین کے مطابق دفعہ 302 کے تحت یا تو سزائے موت ہوتی ہے یا تادم مرگ عمر قید۔ جب کہ دفعہ 304 کے تحت یا تو عمر قید ہوتی ہے یا دس سال کی جیل۔

پولیس کا کہنا ہے کہ تبریز انصاری کے معاملے میں پوسٹ مارٹم رپورٹ کی بنیاد پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ سرائے کیلا کھرسوا ضلع کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) کارتک ایس نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حتمی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ تبریز انصاری کو منصوبہ بندی کے تحت ہلاک نہیں کیا گیا بلکہ ان کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی۔ رپورٹ میں دماغ میں فریکچر کی بھی بات کہی گئی تھی۔

شائستہ پروین نے پولیس کی جانب سے قتل کی دفعہ ہٹانے کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا اور پولیس کے اس قدم کو چیلنج کیا تھا۔ اس واقعے کے خلاف ملک گیر سطح پر احتجاج بھی ہوا تھا۔ جس کے بعد پولیس نے اضافی فرد جرم داخل کی تھی جس میں اس نے ملزموں کے خلاف دوبارہ دفعہ 302 نافذ کیا تھا۔