چین میں آن لائن خرید و فروخت اور تجارت کی سب سے بڑی کمپنی علی بابا گروپ نے کہا ہے کہ حکومت کے کریک ڈاؤن کی وجہ سے حالیہ سہ ماہی میں اس کے منافع میں 81 فی صد کمی ہوئی ہے۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق علی بابا گروپ کا کہنا ہے کہ رواں ماہ جولائی تا ستمبر کی سہ ماہی میں اس کی آمدن 28 ارب یوآن سے کم ہو کر پانچ ارب یوان (کم و بیش 83 کروڑ ڈالر) تک آ گئی ہے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق علی بابا گروپ نے اپنی سالانہ شرحِ نمو کی پیش گوئی میں بھی کمی کر دی ہے جس کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹ میں اس کے حصص کی قیمت 11 فی صد کم ہو گئی ہے۔
اگرچہ کمپنی نے اپنے حالیہ اندازوں میں یہ توقع بھی ظاہر کی ہے کہ آئندہ برس مارچ تک اس کی آمدن میں 20 سے 23 فی صد اضافہ ہو جائے گا، البتہ یہ 2014 میں اس کے حصص شیئر بازار میں آنے کے بعد کی سب سے کم شرح ہے۔
علی بابا کے سی ای او ڈینئل ژینگ نے معاشی دباؤ اور چین میں ای-کامرس کے شعبے میں بڑھتی ہوئی مسابقت کو کمپنی کی آمدن میں کمی کا سبب قرار دیا ہے۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کے بعد پیدا ہونے والے معاشی حالات میں چین کے شہری اخراجات کرنے میں زیادہ محتاط ہو گئے ہیں۔
اس کے علاوہ مختلف اشیا کی رسد میں آنے والی رکاوٹیں بھی اس کا سبب ہیں۔ اس وجہ سے علی بابا سمیت چین میں ای کامرس کی دیگر کمپنیوں کی آمدن اور شرح نمو میں کمی آئی ہے۔
SEE ALSO: کیا جیک ما کی 'گمشدگی' کی وجہ اُن کی تقریر ہے؟ان معاشی اسباب کے علاوہ ماہرین چین کی حکومت کی جانب سے علی بابا سمیت ای-کامرس کے شعبے کے خلاف چین کی حکومت کے کڑے ضابطوں اور کریک ڈاؤن کو بھی ان کمپنیوں کی آمدن میں کمی کا باعث قرار دے رہے ہیں۔
کریک ڈاؤن کیوں ہوا؟
چین کی حکمران جماعت کمیونسٹ پارٹی گزشتہ برس سے ای-کامرس اور ٹیکنالوجی کی کمپنیوں کے گرد گھیرا تنگ کر رہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چینی حکومت نے علی بابا گروپ کے بانی جیک ما کو اپنے پلیٹ فارم کے صارفین کا ڈیٹا فراہم کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے ان کارروائیوں کا آغاز کیا تھا۔
ماہرین نے اس بارے میں یہ خدشہ بھی ظاہر کیا تھا کہ اگر جیک ما، علی بابا کے صارفین کی معلومات فراہم کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں تو ڈیجیٹل دنیا میں چین کو مقامی اور بین الاقوامی صارفین پر اثر انداز ہونے کے زیادہ وسیع مواقع ملیں گے۔
وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق سائبر سیکیورٹی کے ایک ماہر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کی نظر جیک ما کو حاصل ڈیجیٹل بالادستی پر ہے۔ جیک ما کو سرمائے، معلومات اور مواد تینوں شعبوں میں بالادستی حاصل ہے۔
حکومت کا رویہ کب تبدیل ہوا؟
چین کے سرکاری اداروں نے رواں برس کے آغاز میں علی بابا گروپ کے خلاف مالیاتی امور میں تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔
اس بارے میں مبصرین کا کہنا تھا کہ چین کی حکومت جیک ما پر معلومات کی فراہمی کے لیے دباؤ ڈالنے کی خاطر یہ اقدامات کر رہی ہے۔ ان تحقیقات کے بعد علی بابا گروپ پر دو ارب 75 کروڑ ڈالر کا بھاری جرمانہ بھی کیا گیا تھا۔
ان تحقیقات اور اور حکومت کی جانب سے ضابطوں میں کی جانے والی تبدیلیوں پر جیک ما نے چین کے سرکاری اداروں پر تنقید بھی کی تھی۔ اپنے تنقیدی بیانات کے بعد جیک ما کچھ عرصے کے لیے منظر عام سے غائب بھی ہو گئے تھے۔
اس کے بعد سے چین کی حکومت ڈیجیٹل شعبے سے وابستہ بڑی کمپنیوں پر عائد ہونے والے ضابطے سخت کر رہی ہے اور کئی کمپنیوں پر جرمانے بھی ہو چکے ہیں لیکن پالیسی میں اس تبدیلی کا اولین ہدف علی بابا گروپ بنا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
چینی حکومت کے اس دباؤ کی وجہ سے گیمنگ کی بڑی کمپنی ’ٹین سینٹ‘، معروف ویڈیو ایپ ٹک ٹاک کی مالک کمپنی ’بائٹ ڈانس‘ اور علی بابا نے سنگا پور کا رُخ کرنا شروع کر دیا تھا۔ جب کہ علی بابا نے ای-کامرس کے علاوہ جائیداد کی خرید و فروخت میں سرمایہ کاری بھی شروع کر دی تھی۔
حکومت ڈیٹا تک رسائی کیوں چاہتی ہے؟
سائبر سیکیورٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ علی بابا اور ای-کامرس کی دیگر ویب سائٹس کے ڈیٹا تک رسائی سے چین کی حکومت ٹیکس چوری، آن لائن مرچنٹ اور خریداروں کی منی لانڈرنگ کی سرگرمیوں کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے۔ ان سرگرمیوں میں کمیونسٹ پارٹی کے ارکان اور سرکاری ملازمین بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق ڈیٹا تک رسائی کی یہ کوششیں چین میں کرپشن کے خلاف جاری مہم کا بھی حصہ تھیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے ساتھ آن لائن خریداری کے ڈیٹا تک رسائی حکومت کو اظہار اور معلومات کی آزادی پر سینسرشپ عائد کرنے، سیاسی مخالفین اور مذہبی اعتقاد رکھنے والوں پر دباؤ بڑھانے میں بھی مددگار ہو سکتی ہے۔
وہ اس کی یہ مثال دیتے ہیں کہ معلومات میسر ہونے پر کسی بھی مذہبی کتاب کی خریداری کرنے والوں کا علم حکام کو ہو سکتا ہے اور وہ ان کے خلاف کارروائی کر سکتے ہیں۔
SEE ALSO: چین میں ایپل اسٹور سے قرآن اور بائبل کی ایپس ہٹا دی گئیںچین کی حکومت کا مؤقف رہا ہے کہ وہ ای-کامرس کمپنیوں میں مسابقت برقرار رکھنے کے کئی ضابطوں میں تبدیلی لا رہی ہے۔ ای-کامرس پلیٹ فارمز نے اپنے مرچنٹس کو دیگر پلیٹ فارمز پر اشیا فروخت نہ کرنے کا پابند بنایا تھا اور حکومتی ریگولیٹرز نئے ضابطوں سے ایسی اور اس جیسی دیگر شرائط ختم کر رہی ہے۔
سینٹر فار انوویشن فیوچر سے وابستہ ماہر ابیشر پرکاش ای کامرس کمپنیوں کے لیے ضابطوں میں تبدیلی اور ٹیک کمپنیوں پر کریک ڈاؤن کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کا مقصد بنیادی طور اپنی جیوپولیٹیکل مفادات اور اثر و رسوخ بڑھانا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں عالمی سیاست میں اثر انداز ہونے کا مؤثر ذریعہ ہیں اور چین کو ان کی ضرورت ہے۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ اور ’اے ایف پی‘ سے لی گئ ہے۔