الجزائر کی پارلیمان نے حکومت کی جانب سے پیش کی جانے والی کئی اہم آئینی اصلاحات منظور کرلی ہیں جن کا مقصد ملک میں جمہوریت کو مستحکم کرنا ہے۔
الجزائری حکومت کا کہنا ہے کہ پارلیمان سے منظوری کے بعد ان سیاسی اصلاحات کے نفاذ کا وعدہ پورا ہوگیا ہے جو صدر عبدالعزیز بوتفلیکا نے 2011ء میں عرب بہار (عرب اسپرنگ) کے دوران عوام سے کیا تھا۔
لیکن الجزائر کی حزبِ اختلاف کے کئی اہم رہنماؤں نے حکومت کی متعارف کردہ آئینی اصلاحات کو نمائشی قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے۔
دو ایوانوں پر مشتمل الجزائر کی پارلیمان میں صدر بوتفلیکا کی جماعت 'ایف ایل این' اور اس کی اتحادی جماعتوں کی اکثریت ہے جنہوں نے حزبِ اختلاف کی مخالفت کے باوجود اتوار کو بآسانی آئینی اصلاحات منظور کرلیں۔
ایوان میں موجود 517 ارکان میں سے 499 نے اصلاحات کے حق میں ووٹ دیا جب کہ 16 ارکان نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ حزبِ اختلاف کی کئی جماعتوں نے ووٹنگ کا بائیکاٹ کیا۔
نئی قانون سازی کے تحت دو بار سے زائد صدر بننے پر دوبارہ پابندی عائد کردی گئی ہے جسے 2008ء میں حکومتی نے ایک آئینی ترمیم کے ذریعے ختم کردیا تھا۔
اس پابندی کے خاتمے کے نتیجے میں دو بار صدر رہنے والے 78 سالہ بوتفلیکا مزید دو بار اس عہدے پر منتخب ہوچکے ہیں۔
صدر بوتفلیکا 2013ء میں شدید علیل ہوگئے تھے جس کے بعد سے وہ بہت کم منظرِ عام پر آئے ہیں۔ لیکن اپنی بیماری کے باوجود وہ 2014ء میں چوتھی بار صدر کے عہدے کے لیے منتخب ہونے میں کامیاب رہے تھے۔
نئی اصلاحات کے تحت پارلیمان کے کئی اختیارات میں اضافہ کیا گیا ہے جب کہ صدر کو پابند بنایا گیا ہے کہ وہ پارلیمان کی اکثریتی جماعت سے تعلق رکھنے والے رکن کو وزیرِاعظم نامزد کریں گے۔
اتوار کو منظور کی جانے والی آئینی اصلاحات کے ذریعے ملک میں انتخابی عمل کی نگرانی کے لیے آزاد ادارے کے قیام کی بھی منظوری دی گئی ہے۔
آئینی اصلاحات کے ذریعے الجزائر میں آباد بربر قبائل کی زبان امازیغ کو بھی عربی کے ساتھ ساتھ ملک کی سرکاری زبان کو درجہ دیدیا گیا ہے۔
بربر قبائل شمالی افریقہ کے اصل باشندے تصور کیے جاتے ہیں جو ساتویں صدی عیسوی میں اس علاقے میں عربوں کی آمد سے قبل یہاں آباد تھے۔
الجزائر کی حکومت نے 2002ء میں امازیغ کو قومی زبان کا درجہ دیدیا تھا جس کے نتیجے میں بربر قبائل کے اکثریتی علاقوں کے اسکولوں میں اس زبان کی تدریس کی راہ ہموار ہوگئی تھی۔
تاہم بربر قبائل کے رہنما امازیغ کو سرکاری زبان قرار دینے کا مطالبہ کر رہے تھے تاکہ یہ زبان سرکاری دفاتر اور دستاویزات میں بھی استعمال کی جاسکے۔