کیا آج کا پاکستان علامہ اقبال کے خواب کی تعبیر ہے؟

فائل فوٹو

پاکستان قائم ہونے کے 72 سال بعد آج بھی علمی و ادبی حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ پاکستان کا خواب دیکھنے والے علامہ اقبال اصل میں کس طرح کا پاکستان دیکھنا چاہتے تھے۔

انہیں مفکر پاکستان کہا جاتا ہے۔ ہندوستان سے تاج برطانیہ کی رخصتی اور دو آزاد مملکتوں کے قیام سے بہت پہلے علامہ اقبال نے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں اپنے خطبے میں اس وقت جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کا تصور پیش کیا تھا جب کسی نے اس پہلو پر سوچا بھی نہیں تھا۔

علامہ اقبال کی شاعری کے مختلف ادوار میں ان کی سوچ مختلف رہی ہے۔ کہیں وطنیت ان پر غالب ہے تو کہیں اسلام کی نشاۃ الثانیہ کی خواہش کرتے نظر آتے ہیں۔ کہیں ان کے کلام میں لبرل ازم ہے تو کہیں اجتماعیت کے فلسفے سے بھی متاثر دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کے لیے جس مملکت کا خواب دیکھا تھا، اس میں وہ کیسا نظام چاہتے تھے، اس پر بحث آج بھی جاری ہے۔

آئیے ان کی سوانح پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

9 نومبر علامہ محمد اقبال کا یوم پیدائش ہے۔ اگرچہ ان کی تاریخ ولادت پر تاریخ دانوں میں اختلافات ہیں، لیکن پاکستان میں سرکاری طور پر 9 نومبر 1877 کو ہی ان کی تاریخ پیدائش تسلیم کیا جاتا ہے۔

اقبال کے آباؤ اجداد لگ بھگ اٹھارویں صدی کے آخر میں کشمیر سے نقل مکانی کر کے سیالکوٹ آئے تھے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں حاصل کی اس کے بعد لاہور آ گئے جہاں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے فلسفے میں ایم اے کیا۔ یونیورسٹی میں ان کے استاد ٹی ڈبلیو آرنلڈ تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ان کی علمی اور فکری زندگی کا رخ متعین کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

زمانہ طالب علمی میں ہی انہوں نے شاعری شروع کر دی تھی اور وہ مشاعروں میں شرکت کرنے لگے۔ رفتہ رفتہ ان کی شاعری کا منفرد پہلو اور گہرائی لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے لگی۔

ایم اے کرنے کے بعد علامہ اقبال نے کچھ عرصہ اورینٹل کالج میں ملازمت کی اور گورنمنٹ کالج میں انگریزی اور فلسفہ بھی پڑھایا جس کے بعد وہ یورپ چلے گئے، جہاں میونخ یونیورسٹی سے انہوں نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد وہ لندن آگئے اور وہاں سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ قانون پڑھنے کا غالباً مقصد یہ تھا کہ انہوں نے وکالت کا آزادانہ پیشہ اختیار کرنے کے لیے اپنا ذہن بنا لیا تھا۔

کچھ عرصہ لاہور میں تعلیم و تدریس سے وابستہ رہنے کے بعد علامہ اقبال نے ملازمت کو خیر باد کہہ کر وکالت شروع کر دی۔

اس دوران عالمی سطح پر آنے والی تبدیلیوں نے جنوبی ایشیا کے حالات کو بھی متاثر کیا اور آزادی کی تحریکیں زور پکڑنے لگیں۔

اقبال نے بھی ان تبدیلیو ں کے اثرات کو قبول کیا اور انہیں احساس ہوا کہ مسلمانوں کو ہر طرف سے دبایا جا رہا ہے۔ وہ جو کچھ محسوس کر رہے تھے، اس کی جھلک شعروں میں نمایاں ہوتی گئی۔

1926ء میں علامہ اقبال پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی کے ممبر چنے گئے۔ آپ آزادی وطن کے علمبردار تھے۔ سیاسی تحریکوں میں حصہ لیتے تھے۔ مسلم لیگ میں شامل ہوگئے اور آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے آپ کا الہ آباد کا مشہور صدارتی خطبہ تاریخی حیثیت رکھتا ہے اس خطبے میں آپ نے پاکستان کا تصور پیش کیا۔

1931ء میں آپ نے گول میز کانفرنس میں شرکت کرکے مسلمانوں کی نمائندگی کی۔ آپ کی تعلیمات اور قائداعظم کی ان تھک کوششوں سے ہندوستان کی تقسیم دو آزاد مملکتوں میں ہوئی اور مسلمانوں کے لیے دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک وجود میں آیا۔ لیکن پاکستان کا خواب دیکھنے والی آنکھ یہ دن نہیں دیکھ سکی، پاکستان بننے سے چند سال پہلے 21 اپریل 1938 میں علامہ اقبال کا انتقال ہو گیا۔

اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے نئی نسل میں انقلابی روح پھونکی۔ ان کی کئی کتابوں کے انگریزی، جرمنی، فرانسیسی، چینی، جاپانی اور دوسری متعدد زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔