ترکی عراق سے اپنی فوج فوری طور پر واپس بلائے: عبادی

عراق کے سرکاری ٹیلی ویژن کے مطابق، ترکی کے وزیر اعظم احمد داؤداوگلو کے ساتھ بدھ کو ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے، عبادی نے سوال کیا کہ آخر ترکی عراق کی سرحد کے اندر اپنے فوجی تربیت کار کیوں بھیج رہا ہے، جب کہ داعش کے لڑاکا تو ترکی کی شام والی سرحد پر موجود ہیں

عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی نے عراقی علاقے سے ترکی کی افواج کے فوری انخلا کا ایک بار پھر مطالبہ کیا ہے۔

عراق کے سرکاری ٹیلی ویژن کے مطابق، ترکی کے وزیر اعظم احمد داؤداوگلو کے ساتھ بدھ کو ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے، عبادی نے سوال کیا کہ آخر ترکی عراق کی سرحد کے اندر اپنے فوجی تربیت کار کیوں بھیج رہا ہے، جب کہ داعش کے لڑاکا تو ترکی کی شام والی سرحد پر موجود ہیں۔

عبادی نے ترکی پر الزام لگایا کہ وہ شمالی عراق سے اپنی فوج کو واپس بلانے کے سمجھوتے کی پاسداری میں ناکام رہا ہے؛ اور اُنھوں نے متنبہ کیا کہ عراق کے اقتداراعلیٰ کے دفاع کے لیے فوجی اقدام کیا جاسکتا ہے۔

یہ انتباہ ایسے میں سامنے آیا ہے جب عراق نے ترکی پر الزام عائد کیا ہے کہ اُس نے شمالی عراق میں بشیقہ کے تربیتی کیمپ کی حفاظت کی خاطر اپنے کچھ ٹینک اور فوجی ضرور ہٹائے ہیں۔ تاہم، داؤداوگلو نے اس خطرے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ عراقی افواج کو دولت اسلامیہ پر دھیان مرکوز رکھنا چاہیئے۔

رمادی میں مزاحمت

دریں اثنا، رمادی کے مغربی شہر کے کلیدی علاقوں کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد، عراقی سکیورٹی فورسز نے کہا ہے کہ داعش کے لڑاکوں کے مراحمتی مراکز سے اب بھی شہر کے قرب و جوار کو خطرات لاحق ہیں۔

امریکی قیادت والے اتحاد کی جانب سے کیے جانےوالے فضائی حملوں اور داعش کے تسلط کے نتیجے میں رمادی تباہ کا شہر تباہ ہوچکا ہے، جس میں بارودی سرنگیں بچھی ہوئی ہیں اور دیسی ساختہ دھماکہ خیز آلات نصب ہیں۔

اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق، شہر کی از سر نو تعمیر اور مکینوں کی آبادکاری پر دو کروڑ ڈالر خرچ آئیں گے۔

معروف امریکی سفارت کار، جیمز جیفری نے، جو کسی زمانے میں بغداد میں تعینات رہ چکے ہیں، وائس آف امریکہ کے وکٹر بئٹی کو بتایا کہ داعش کے لڑاکوں کو بالآخر شہر سے باہر نکال دیا جائے گا۔

جیفری اب ’واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فور نیئر ایسٹ پالیسی‘ کے تحقیقی ادارے کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بقول اُن کے، فی الوقت، بنیادی طور پر شہر عراقی افواج کے کنٹرول میں ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ ’اُنھیں عددی سبقت حاصل ہے۔ خطہ اُن کے قبضے میں ہے جب کہ اُن کی افواج کی ایک چھوٹی سی نفری داعش پر حملے کر رہی ہے۔ اگر وہ وہاں پہنچ پاتے ہیں تو زیادہ تر افواج اس علاقے پر کنٹرول قائم رکھ سکتے ہیں۔ اس لیے، وہ داعش کے لڑاکوں کو ختم کرنے کا کام انجام دیں گی اور بالآخر اُنھیں وہاں سے نکال باہر کیا جائے گا‘۔