صومالیہ کے شدت پسند گروپ، الشباب نے دہشت گرد بھرتی کرنے سے متعلق اپنی ایک نئی وڈیو جاری کی ہے جس میں تشدد کے واقعات کے دوران امریکی پولیس کی کارکردگی اور صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مسلمانوں کو امریکہ میں آنے کی اجازت نہ دینے سے متعلق بیان کی نشاندہی کی گئی ہے۔
یہ وڈیو جمعے کے روز جاری کی گئی۔ اس میں پہلی بار امریکہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دیے گئے اِس گروہ نے ٹرمپ کے بیان یا امریکہ کے دیگر معاملات کو پیش کرتے ہوئے، انٹرنیٹ کے ذریعے حامیوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ ’نام نہاد داعش کا شدت پسند گروہ ’ڈونلڈ ٹرمپ کے اسلام اور مسلمان مخالف بیانات پر مشتمل وڈیو دکھا رہا ہے، تاکہ وہ مزید سخت گیر جہادی بھرتی کر سکے‘۔
اس دعوے کی تصدیق ہونا ابھی باقی ہے۔ تاہم، اب الشباب ٹرمپ کا نام استعمال کرنے لگا ہے۔ اُس کی نئی وڈیو میں ایک کلپ دکھائی گئی ہے جس میں ریبپلیکن امیدوار مسلمان سیاحوں پر فوری مکمل پابندی لگانے کے بارے میں اپنا بیان پڑھ رہے ہیں۔
کلپ میں الشباب کا ایک گمنام ترجمان انگریزی بولتے ہوئے اس بات پر زور دیتا ہے کہ امریکہ میں مسلمانوں کو دونوں میں سے ایک بات قبول کرنی ہوگی: 'یا ملک چھوڑ دیں یا پھر جہاد کریں'۔
نئی وڈیو میں امریکی پولیس کی جانب سے مبینہ پٹائی کرنے یا سیاہ فام مردوں پر گولیاں چلانے کی مثالیں پیش کی گئی ہیں۔
فُٹ ایج، جو پولیس کیمرا کی عکس بندی پر متشمل ہے، اُس پر پہلے ہی امریکہ میں شدید مباحثہ جاری ہے تا کہ پولیس کی جانب سے سختی اپنانے کی مناسب حدیں مقرر کی جائیں۔ سخت کارروائی کے اِن واقعات کے نتیجے میں ’بلیک لائوز میٹر‘ نامی تحریک نے متعدد شہروں میں مظاہرے کیے ہیں۔
الشباب کی اس وڈیو میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ 'امریکہ انتہائی نسل پرست معاشرہ ہے، جہاں زیادتی کے طور پر سیاہ فاموں کو جیلوں میں ٹھونسا جاتا ہے'۔ اس میں کہا گیا ہے کہ 'سیاہ فام امریکی اسلام اختیار کر سکتے ہیں'۔
منی سوٹا سے موغادیشو
الشباب کی اِس وڈیو کے ایک بڑے حصے میں ریاست منی سوٹا میں مقیم صومالی نژاد امریکیوں کو دکھایا گیا ہے جو 2007ء اور 2009ء کے دوران مبینہ طور پر امریکہ سے صومالیہ جا کر گروپ کے ہمراہ لڑائی میں شامل ہوئے۔
فرح محمد بیلادی نامی ایک شخص منی پولس کے سابق مکین ہیں۔ وہ سنہ 2011 میں موغادیشو میں افریقی یونین کے امن کاروں کے خلاف خودکش بم حملہ کرنے کی کوشش کے دوران مارے گئے۔
جبریل افیار منی پولس شہر میں ’صومالی امریکی سٹیزنز لیگ‘ کے صدر ہیں۔ جمعے کو ’وائس آف امریکہ‘ کی صومالی سروس کو انٹرویو دیتے ہوئے، اُنھوں نے اس وڈیو کو الشباب کا ’آخری حربہ‘ قرار دیا۔