انٹلیجنس کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا کہنا ہے کہ شدت پسند گروپ الشباب کے وہ ارکان جنہوں نے داعش کی حمایت کا اعلان کیا تھا وہ صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو میں داخل ہو رہے ہیں۔
موغادیشو میں قائم سلامتی سے متعلق ادارے صومالیہ انسٹیٹوٹ فار سیکورٹی اسٹڈیز کے سربراہ کرنل عبداللہ علی مااُو نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ الشباب کے کارکن وسطی جُبا کے علاقے سے پسپائی اختیار کرنے کے بعد دارالحکومت اور کینیا کی سرحد کے قریب واقع علاقوں کی طرف فرار ہو رہے ہیں۔
مااُو نے کہا کہ موغادیشو اس لیے اہم ہے کیونکہ لاکھوں کی آبادی والے اس شہر میں چھپنا آسان ہے۔
رواں ہفتے صومالیہ میں ہونے والے ایک حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی جس میں دارالحکومت کے باہر افریقی یونین کے فوجیوں کے ایک قافلے کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
تاہم صومالیہ میں افریقی یونین کے امن مشن کے ترجمان جوزف کبت نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کہ داعش شاید اس حملے میں ملوث نا ہو۔
دوسری طرف الشباب نے بھی اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے جیسا کہ وہ اکثر کرتے رہتے ہیں۔
ایک انٹلیجنس افسر نے نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ الشباب اپنے ان سابق ارکان کے خلاف ہے جنہوں نے داعش کی حمایت کا اعلان کیا تھا اور اس وجہ سے ان میں اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔
ان کے خیال میں تشدد کے ایسے واقعات رونما ہو سکتے ہیں جن کے بارے میں دونوں گروپ آگاہ ہوں تاہم ان کے متعلق انہوں ںے خاموشی اختیار کی ہو۔
کرنل مااُو نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ الشباب کے وہ ارکان جو موغادیشو آ رہے ہیں حکومت ان سے اسی طرح نمٹنے کا ارادہ رکھتی ہے جس طرح الشباب کے دیگر عسکریت پسندوں سے نمٹا گیا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ حکومت کو خدشہ ہے کہ داعش کے حامیوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "ابھی وہ شاید اتنے طاقتور نا ہوں لیکن ان کی وجہ سے صورت حال پیچیدہ ہورہی ہے۔"