القاعدہ کے شدت پسندوں نے 15 یمنی فوجی ہلاک کردیے

فائل

مقامی اطلاعات کے مطابق، القاعدہ کے مسلح ارکان نے احوار کے قصبے میں فوجیوں کو روکا، جو سولین گاڑیوں میں سوار تھے۔ شدت پسندوں نے فوجیوں کو گاڑیوں سے باہر نکلنے کا حکم دیا، اور پھر علی الصبح کی اِس واردات میں اُنھیں گولیاں مار کر ہلاک کردیا

جنوبی یمن میں القاعدہ کے شدت پسندوں نے صوبہ ابیان میں اپنا قافلہ روکا، اور گھات لگا کر وار کرتے ہوئے کم از کم 15 فوجیوں کو ہلاک کیا۔

مقامی اطلاعات کے مطابق، القاعدہ کے مسلح ارکان نے احوار کے قصبے میں فوجیوں کو روکا، جو سولین گاڑیوں میں سوار تھے۔ شدت پسندوں نے فوجیوں کو گاڑیوں سے باہر نکلنے کے لیے کہا، اور پھر علی الصبح کی اِس واردات میں اُنھیں گولیاں مار کر ہلاک کردیا۔

مقامی عہدے داروں نے رائٹرز نیوز ایجنسی کو بتایا کہ مزید 17 فوجی زخمی ہوئے، جن کے لیے خیال کیا جاتا ہے کہ وہ زندہ ہیں، حالانکہ جس مقام پر یہ واقع پیش آیا اُس کی نشاندہی نہیں ہوپائی۔

جمعرات کے روز 'ہیومن رائٹس واچ' نے ایک رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ یمن کی مارکیٹ پر سعودی قیادت والے اتحاد کی جانب سے کیے گئے فضائی حملے میں استعمال ہونے والے بم امریکی ساختہ تھے۔ 15 مارچ کے اِس حملے میں کم ازکم 100 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

انسانی حقوق کے گروپ کے مطابق، ہلاک ہونے والوں میں 25 بچے بھی شامل تھے۔ اِس فضائی کارروائی میں 47 افراد زخمی ہوئے، جس واقعے کو یمن کی ایک سال سے جاری لڑائی کا سب سے زیادہ مہلک واقع قرار دیا جاتا ہے۔

اس رپورٹ کا اجرا ایسے وقت ہوا جب امریکی وزیر خارجہ جان کیری بحرین کے دورے پر تھے۔ کیری نے صورت حال پر بیان دینے سے احتراز کرتے ہوئے کہا کہ ''میرے پاس کوئی ٹھوس اطلاع یا اعدد و شمار نہیں آیا کس قسم کا ہتھیار استعمال ہوا ہوگا''۔

حالانکہ سعودی حکام کا کہنا ہے کہ اس حملے میں ہلاک ہونے والوں کی اکثریت کا تعلق حوثی باغیوں سے تھا، 'ہیومن رائٹس واچ' نے کہا ہے کہ ''جنگ کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، شہریوں کی نامناسب تعداد کو ہلاک کیا گیا ہے''۔

حقوق انسانی کے گروپ کا کہنا ہے کہ ایسے غیر قانونی حملے جان بوجھ کر یا دیدہ دلیری سے کیے گئے، جو کہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں''۔

'ہیومن رائٹس واچ' نے یہ اس بات کا بھی عندیہ دیا ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس اب بھی سعودی عرب کو ہتھیاروں کی رسد پہنچا رہے ہیں، اور بعید نہیں کہ ناجائز فضائی حملوں کے سلسلے میں اُنھیں بھی ذمہ دار قرار دیا جائے۔